مظفرآباد:جج عدالت العالیہ جسٹس میاں عارف حسین کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر عدالت العالیہ مظفرآباد میں فل کورٹ ریفرنس منعقد ہوا۔ فل کورٹ ریفرنس کی صدارت چیف جسٹس عدالت العالیہ جسٹس صداقت حسین راجہ نے کی ۔
چیف جسٹس عدالت العالیہ جسٹس صداقت حسین راجا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس میاں عارف حسین کو الوداع کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ یقینا آج ہم ایک اچھے، دیانتدار محنتی جج کو طویل عرصہ تک شعبہ عدل و انصاف میں خدمات سرانجام دینے کے بعد رخصت کر رہے ہیں۔
آج کا دن جہاں ہمارے لیے کرب کا باعث ہے کہ ہم اپنے ایک قابل جج سے محروم ہور ہے ہیں وہاں اس بات کا اطمینان بھی ہے کہ میاں عارف حسین نے شعبہ عدل و انصاف میں اپنا کامیاب سفر مکمل کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دراصل وہ صاحب منصب ہی کامیاب ٹھہرتا ہے جو اپنے فرائض منصبی بلا خوف و خطر، دیانت داری سے سرانجام دیتا ہے۔ ریاست کے دیگر عہدوں کے برعکس منصب عدل کی نوعیت انتہائی حساس ہے۔ عدل کی اہمیت کی بابت اللہ تعالی نے قرآن پاک میں حکم دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 08 جنوری 2022 آزاد جموں وکشمیر کی عدلیہ کی تاریخ کا یقینا ایک اہم دن تھا جس دن جسٹس میاں عارف حسین اور دیگر پانچ جج صاحبان عدالت عالیہ میں تعینات ہوئے۔
طویل عرصہ سے ججزکی عدم تعیناتی کے باعث عدالت عالیہ میں کثیر تعداد میں مقدمات التواء کا شکار تھے۔ نئے تعینات ہونے والے حج صاحبان کے حلف اٹھانے کے بعد جب ہم نے نئے مقدمات کے ساتھ ساتھ پرانے مقدمات کو یکسو کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے باقاعدہ اہداف مقرر کئے۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس صداقت حسین راجہ نے رجسٹریشن آف ڈیڈز اینڈ مینجمنٹ سسٹم راولاکوٹ کا افتتاح کر دیا
تمام ججز صاحبان کی طرح جسٹس میاں عارف حسین نے پرانے مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر یکسو کرنے کے لیے دن رات محنت کی جس کے نتیجہ میں ہم مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ میں آج بلا خوف و خطر، روورعایت اور غیر جانبدارانہ طور پر فرائض انجام دینے پر جسٹس میاں عارف حسین کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ایک حج کو دیانتداری، راست بازی، مضبوط اعصاب، شائستگی، صبر، کھلے ذہن، بہترین سجھ اور انسانی ہمدردی کی سوچ کا حامل ہونا چاہیے۔ مقدمات کے حقائق کا تجزیہ کرنے اور تمام قوانین کو سمجھنے اور قوانین کی اطلاق پذیری کا تعین کرنے کی صلاحیت جج کے لیے انتہائی اہم ہے۔
جج کو ذاتی اور پیشہ ورانہ اخلاقیات سے آگاہ ہونا چاہیے اور ان کی پیروی بھی کرنی چاہیے۔ جج میں وہ کام کرنے کی ہمت ہونی چاہیے جس کا قانون اس سے مطالبہ کرتا ہے۔
مشہور یونانی فلسفی اسقراط نے اچھے حج کی ضروری خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جج کو محبت سے سننے والا، دانشمندی سے جواب دینے والا، سنجیدگی سے غور کرنے والا اور غیر جانبداری سے فیصلہ کرنے والا ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس میاں عارف حسین کو اللہ تعالی نے حج کی خصوصیات عطاء فرما رکھی ہیں جن کو بروئے کار لاتے ہوئے جسٹس موصوف نے فراہمی انصاف میں کردار ادا کیا ہے۔
میرے نزدیک پیشہ عدل اور مقدمات کا فیصلہ ایک قومی فریضہ ہی نہیں بلکہ عبادت ہے مگر عبادت جہاں اجر و ثواب کا باعث ہوتی ہے وہاں اس کے اپنے تقاضے بھی ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سائبر کرائم، آئی ٹی کے ذریعے وقوع پذیر ہونے والی معاشی اور معاشرتی فراڈ، کر پٹوکرنسی جیسے عوامل اور دن بدن جدید سے جدید ہتھیاروں کے استعمال نے شعبہ عدل وانصاف اور اس سے وابستہ دیگر ادارہ جات اور افراد کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔
قوانین میں ضروری تبدیلی دترمیم جدید فرانزک لیب اور آئی ٹی ماہرین کی ضرورت پہلے سے کئی گناہ زیادہ ہو چکی ہے۔اس ضمن میں بروقت اقدامات اٹھا کر ہی ہم فراہمی انصاف کے جدید تقاضوں پر پورا تر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر چہ ریاست کے اندر قائم تمام ادارہ جات کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اُمور کی انجام دہی ایسے درست انداز میں کریں کہ کسی کو بھی عدم تحفظ کا احساس نہ ہو۔
جسٹس میاں عارف حسین، جج عدالت عالیہ آزاد جموں و کشمیر کو اپنی جانب سے اور فاضل حجز صاحبان عدالت عالیہ کی جانب سے نیک خواہشات و تمناؤں کے ساتھ الوداع کہتا ہوں۔
اکثر مقدمات وکلاء کی متعلقہ قانون کے حوالہ سے کنفیوژن کی وجہ سے التوا کا شکار ہوتے، جسٹس میاں عارف
ریٹائرہونے والے جج عدالت العالیہ جسٹس میاں عارف حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہسول حج سے لے کر ڈسٹرکٹ و سیشن حج کے سفر تک جوڈیشل آفیسرز کو ریاست کے اندر مختلف اضلاع و تحصیل ہا میں اپنے فرائض منصبی انجام دینا ہوتے ہیں اور بظاہر ایک سٹیشن سے دوسرے اسٹیشن پر ٹرانسفر کا یہ عمل تکلیف دہ دکھائی دیتا ہے جس سے وقتی طور پر آپ کی نجی زندگی ڈسٹرب ہو جاتی ہے۔
یقین جانیے کہ اگر ٹرانسفر کے اس عمل کو اپنے ذہن پر سوار نہ کیا جائے اور اس کو بوجھ نہ سمجھا جائے تو یہ محض شفٹنگ کے ایک دو دن کی معمولی مشقت اور تکلیف کے علاوہ زیادہ کچھ نہیں اس ضمن میں میرا کہنا یوں ہے کہ میں نے اپنی پہلی تقرری سول جج تھورا ڑضلع پونچھ لے کر آخری (تقرری) بطور ڈسٹرکٹ و سیشن جج بھمبر تک کبھی بھی ٹرانسفر کے اس عمل کو اپنے لیے روگ جاں نہیں بنایا۔
انہوں نے کہا کہ مجھے آزاد کشمیر کے طول و عرض میں بسنے والے باشندگان سے بے پناہ محبت ملی۔ ہر ہرسٹیشن پر وکلاء کمیونٹی نے جہاں عدالتی امور میں میرے ساتھ بھر پور تعاون کیا وہاں انہوں نے مجھے بے حد احترام بھی دیا۔
جسٹس میاں عارف حسین نے کہا کچ میرے مشاہدہ میں رہا ہے کہ اکثر فائلیں اور مقدمات وکلاء کی متعلقہ قانون کے حوالہ سے confusion کا شکار ہونے کے باعث التواء کا شکار ہوتی ہیں۔ جو ایک افسوس ناک صورتحال ہے۔ اس ضمن میں سینئر وکلاء پر لازم ہے کہ وہ اپنے جونیئر زیا ایسوسی ایٹس کی تربیت کے عمل کو ہمہ وقت جاری رکھیں۔
چیف جسٹس عدالت العالیہ جسٹس صداقت حسین راجہ نے ریٹائر ہونے والے جج جسٹس میاں عارف حسین کو عدالت العالیہ کی جانب سے یادگاری شیلڈ دی۔