بیٹےکی ناکامی کے بعد ماں نے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا

بیجنگ(کشمیر ڈیجیٹل)یہ واقعی ایک متاثر کن اور حوصلہ افزا خبر لگتی ہے۔ ہم اکثر ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیم صرف جوانی میں حاصل کی جا سکتی ہے، لیکن یہ مثال بتاتی ہے کہ سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔

بیٹے کی ناکامی ماں کیلئے محرک بنی اور اس نے انہی کتابوں کو پڑھ کر یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ یہ نہ صرف ماں کی محنت اور ہمت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ:کامیابی کے لیے وقت یا عمر کی قید نہیں ۔

مشکلات بعض اوقات نئی راہیں کھول دیتی ہیں۔ماں کی لگن اور قربانی ہمیشہ اولاد کے لیے مثال بنتی ہے۔ایک دہائی سے زائد عرصے قبل آگ سے جلنے کے باعث طویل عرصے تک مختلف مسائل کا سامنا کرنے والی 50 سالہ خاتون کو چین کی ایک ممتاز یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔

ویسے داخلہ ملنا تو حیرت انگیز نہیں مگر زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ خاتون کو یہ داخلہ ان کتابوں کو پڑھنے سے ملا جن کو استعمال کرکے ان کا بیٹا داخلہ ٹیسٹ میں ناکام ہوگیا تھا۔

جی ہاں واقعی یانگ نامی خاتون کو صوبہ یوننان کی ساؤتھ ویسٹ فوریسٹری یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں داخلہ ملا ہے۔

خاتون نے 2 بار اس یونیورسٹی کا داخلہ ٹیسٹ دیا تھا۔

انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں بتایا کہ ‘ایک بار حادثے کے بعد میں معذور ہوگئی اور ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھی، اس کے بعد ڈپریشن کا بھی سامنا ہوا، اب میں 50 سال کی ہوگئی ہوں اور قانون کی ماسٹر ڈگری کے حصول کا نیا سفر شروع کر رہی ہوں’۔

مشرقی چین کے صوبہ شان ڈونگ سے تعلق رکھنے والی یانگ نے 1990 کی دہائی میں Tongji یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی تھی۔

2013 میں ان کے ہاتھ اور چہرہ آتش زدگی کے باعث بہت زیادہ جل گئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ‘میرا بایاں ہاتھ لگ بھگ مکمل طور پر ناکارہ ہوگیا جبکہ خوش قسمتی سے دایاں ہاتھ ابھی بھی 50 فیصد درست کام کر رہا ہے، جس سے میں پڑھنے کے قابل ہوگئی ہوں’۔

ان کے چہرے پر جلنے کے بہت زیادہ نشانات ہیں، جس کے باعث وہ گھر سے باہر ماسک پہن کر جاتی ہیں۔

یانگ کے مطابق وہ گزشتہ 2 دہائیوں سے ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کی خواہشمند تھیں۔

2 سال قبل انہوں نے داخلہ ٹیسٹ کی تیاری کا فیصلہ اس وقت کیا، جب ان کا بیٹا اسی ٹیسٹ میں ناکام ہوگیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ‘میں نے بیٹے کو مواد اکٹھا کرنے میں مدد فراہم کی تھی اور جب وہ ناکام ہوگیا تو مجھے لگا کہ ان کتابوں کو فروخت نہیں کرنا چاہیے’۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ‘میں نے کچھ صفحات کو پڑھا تو مجھے احساس ہوا کہ میرے لیے یہ زیادہ مشکل نہیں، تو میں نے بیٹے کی کتابوں سے ٹیسٹ کی تیاری شروع کر دی’۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں سب سے مشکل مضمون انگلش محسوس ہوتا ہے کیونکہ وہ اس زبان کو زیادہ استعمال نہیں کرتیں۔

یانگ نے بتایا کہ یہ ٹیسٹ کافی مشکل تھا مگر شوہر اور بیٹے کے تعاون سے میں اسے پاس کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

مزید یہ بھی پڑھیں:15 وفاقی بیورو کریٹس ملازمت سے سبکدوش،نوٹیفکیشن جاری

Scroll to Top