بااختیار اور خاندان کا سہارہ بننے کیلئے گھر سےنکلنے والی لڑکیوں کے خواب ایک پل میں بکھر گئے

اسلام آباد:وفاقی دارالحکومت میں سیکرٹریٹ چوک کے قریب جج کے بیٹے کی گاڑی کی ٹکر سے جاں بحق ہونیوالی لڑکیاں جوبااختیار اور اپنے خاندان کا سہارہ بننے کیلئے گھروں سے نکلی تھیں وہ اپنےخواب اپنے ساتھ لئے خاندان کو کرب میں مبتلا کرگئی ہیں۔

ویب سائٹ اردو نیوز کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی شب گاڑی کی ٹکر سے جاں بحق ہونیوالی 26 سالہ تابندہ کے والد غلام مہدی کاکہنا ہے کہ وہ ہماری زندگی کی روشنی تھی، بیٹی کی شکل میں میرا بیٹا، میرا سب کچھ، میرا مان۔ اس کی موجودگی ہمارے لیے بڑا سہارا تھیمگر آج یقین نہیں آرہا کہ وہ ہمارے درمیان نہیں رہی۔

رپورٹ کے مطابق تابندہ گزشتہ چند برسوں سے (پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس) پی این سی اے میں ایک نجی کمپنی کے ساتھ ایونٹ مینجمنٹ کا کام کر رہی تھیں۔

تابندہ کے والد نے مزید بتایا کہ میری اہلیہ، بیٹی کی ناگہانی موت کے بعد ایک لفظ بھی نہیں بول رہیںاور میں خود کو بھی حوصلہ دینے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ، تباہ حال عمارتوں کے درمیان اجتماعی شادی کی تقریب ،خوشی کے رنگ بکھرگئے

غلام مہدی نے بتایا کہ پیر کی شب تین بجے انہیں فون کال موصول ہوئی کہ ان کی بیٹی کا حادثہ ہو گیا ہے اور وہ پمز ہسپتال میں ہیں۔ ان کے مطابق ’اس خبر کے بعد سے مجھے اب تک صحیح نیند نہیں آئی۔

ان کا کہنا تھاکہ یہ اطلاع ملتے ہی میں اور میری اہلیہ فوری طور پر ہسپتال پہنچے، لیکن میں وہاں کا منظر بیان نہیں کر سکتاکیونکہ تب تک میری بیٹی اور اس کی سہیلی دونوں زندگی کی بازی ہار چُکی تھیں۔

تابندہ بتول نے کوئی تین ماہ قبل اپنی سکوٹی خریدی تھی کیونکہ وہ بااختیار خاتون بننا چاہتی تھیں۔ وہ سکوٹی پر ہی اپنے دفتر کی ساتھی اور دوست ثمرین حسین کے ساتھ آتی جاتی تھیں، یہ سفر ان کے لیے نسبتاً آسان اور محفوظ تھا مگر اُن کے بااختیار بننے کا سفر صرف تین ماہ ہی چل سکا۔

غلام مہدی کے مطابق ان کی بیٹی بعض اوقات رات کو تاخیر سے گھر پہنچتی تھی لیکن ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا تھاجس دن یہ واقعہ ہوا اس روز وہ ایک ایونٹ کی وجہ سے لیٹ ہو گئی۔

تابندہ بتول نے پنجاب کالج سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا تھا اور اس کے بعد تعلیم کا سفر جاری نہ رکھ سکیںبلکہ اپنے والد کا سہارا بننے کے لیے انہوں نے ملازمت شروع کی۔

ان کے والد ایک سرکاری ملازم ہیں اور صرف تنخواہ میں ان کا گزر اوقات مشکل تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میری بیٹی میرا دایاں بازو تھی اور اس نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر ہمارا گزر بسر آسان کر دیا تھا۔

تابندہ بتول اگرچہ اُن کی چھوٹی بیٹی تھیںلیکن سمجھ داری میں وہ گھر کی بڑی سمجھی جاتی تھیں۔غلام مہدی کا کہنا ہے کہ یقین نہیں آرہا کہ جس بیٹی انہوں نے پال پوس کر بڑا کیا وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہی۔

کیس کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’میں ںے دوسری ایف آئی آر درج کروانے کے لیے تھانے میں درخواست دی تو پولیس نے کہا کہ فی الحال دوسری ایف آئی آر کی ضرورت نہیںتاہم تھانہ سیکرٹریٹ کی پولیس نے تعاون کیا ہے، اور امید ہے کہ ہمیں انصاف ملے گا۔

حادثے میں تابندہ بتول کے ساتھ جان کی بازی ہارنے والی 27 برس کی ثمرین حسین کے بھائی عدنان تجمل نے بتایا کہ ان کی ہمشیرہ ایونٹ کے بعد چند روز چھٹیاں لے کے اپنی نیند پوری کرنا چاہتی تھیں لیکن قسمت کو کچھ اور منظور تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’’چائے بولو چائے‘‘نریندر مودی کی ویڈیو پر بھارت میں ہنگامہ

ثمرین پی این سی اے میں ایک نجی کمپنی کے ساتھ صرف ایک ماہ سے ایونٹ مینجمنٹ کا کام کر رہی تھیں۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد انہوں نے انٹیریئر ڈیزائننگ کا کورس کیا تھا۔انہوں نے اپنے بڑے بھائی سے ضد کر کے ملازمت کرنے کی اجازت حاصل کی تھی۔

عدنان تجمل نے پولیس کی تحقیقات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر میں ان کے مطالبے کے باوجود ملزم اور اس کے والد کا نام شامل نہیں کیا گیا۔

’پولیس نے جائے وقوعہ سے نشانات بھی ختم کر دیے ہیں، اور سی سی ٹی وی فوٹیج بھی تاحال فراہم نہیں کی گئی۔ اب وہ ملزم کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد کیس کا جائزہ لیں گے۔

دوسری جانب اسلام آباد پولیس نے دفعہ 322 پی پی سی (قتل بالسبب) ، دفعہ 279 پی پی سی (بے پروائی سے گاڑی چلانا) اور دفعہ 427 کے تحت ایف آئی آر درج کر کے ملزم کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 11 برس قبل پراسرار طور پر غائب ہونیوالے طیارے کی دوبارہ تلاش شروع کرنیکا اعلان

پولیس کا کہنا ہے کہ اس کیس کو قانونی تقاضوں کے مطابق دیکھا جا رہا ہے جس کے مطابق ہی کارروائی کو آگے بڑھایا جائے گا۔

Scroll to Top