موسمیاتی کارکن سونم وانگچک کو جمعہ کو لیہ سے پولیس حکام نے گرفتار کرلیا، ریاست کا درجہ دینے اور آئین کے چھٹے شیڈول میں توسیع کی تحریک کے حامیوں کے پرتشدد مظاہروں کے دو دن بعد جس میں چار افراد ہلاک اور 90 دیگر زخمی ہو گئے،
حکام کے مطابق لداخ کے ڈی جی پی ایس ڈی سنگھ جموال کی قیادت میں پولیس پارٹی نے دوپہر اڑھائی بجے وانگچک کو حراست میں لے لیاگیا۔
وانگچک کے خلاف لگائے گئے الزامات کے بارے میں فوری طور پر واضح نہیں ہو سکا۔وزارت داخلہ نے لیہہ اپیکس باڈی (ایل اے بی) کے ایک سینئر رکن وانگچک پر الزام لگایا تھا، جو کارگل ڈیموکریٹک الائنس (کے ڈی اے) کے ساتھ مل کر پچھلے پانچ سالوں سے مطالبات کی حمایت میں احتجاج کی قیادت کر رہے ہیں۔
تشدد کو اشتعال دلانے کیلئے وانگچک، جو مطالبات کی حمایت میں بھوک ہڑتال کی قیادت کر رہے تھے، تاہم، نے ان الزامات کی تردید کی۔ انہوں نے تشدد کی مذمت کی اور بدھ کو ہونے والے تشدد کے بعد پندرہ روزہ روزہ بھی ختم کیا۔
لداخ کے ضلع لیہہ میں بدھ کے روز اچانک تشدد بھڑک اٹھا، ۔ احتجاج کرنے والے نوجوانوں نے پتھراؤ کیا، پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اور یہاں تک خبر ہے کہ بی جے پی کے دفتر کو آگ لگا دی گئی۔
پرتشدد مظاہروں میں چار افراد ہلاک اور 70 زخمی ہوئے۔ لداخ اور کارگل میں بی این ایس ایس کی دفعہ 163 نافذ کر دی گئی ہے۔
یہ تشدد ماحولیاتی کارکن سونم وانگچک کی قیادت میں ایک تحریک سے ہوا، جو لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دینے اور آئین کے چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
تاہم خبروں کے مطابق، وزارت داخلہ نے اب ایک بیان جاری کیا ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وانگچک نے عرب بہار طرز کے مظاہروں اور نیپال میں جین -زی مظاہروں کا اشتعال انگیز حوالہ دے کر ہجوم کو اکسایا۔
قابل ذکر ہے کہ 2019 میں جب مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر سے دفعہ 370 اور دفعہ 35-A کو ہٹایا تو جموں و کشمیر اور لداخ مرکز کے زیر انتظام علاقے بن گئے۔ تب سے لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تب سے سونم وانگچک لداخ کو چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تاہم، لداخ ہندوستان کے لیے ایک انتہائی حساس خطہ ہے جس کی 1,597 کلومیٹر لمبی ایل اے سی چین کی سرحد سے ملتی ہے۔ اور ایسی صورتحال میں لداخ میں اس طرح کا کوئی بھی احتجاج اور تشدد ہندوستان کیلئے اچھا نہیں ہے۔
مزید یہ بھی پڑھیں:پاکستان کے ہر شہری پر کتنا قرضے کا بوجھ ہے؟ پریشان کن رپورٹ جاری