اسلام آباد (کشمیر ڈیجیٹل )آزاد کشمیر میں سٹریٹجک انسٹالیشنز کی حفاظت کیلئے آج بھی پرائم منسٹر سیکرٹریٹ مظفرآباد میں فرنٹیر کانسٹیبلری تعینات ہے، فرنٹیر کانسٹیبلری ایک دن کیلئے بھی واپس نہیں گئی
ابھی چند دن پہلےفیڈرل گورنمنٹ کے اداروں کی جانب سے ایک تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا ہے کہ کچھ سٹریٹجیک انسٹالیشنز کو ہمارے دشمن ملک، “را” اور اس کی ایجنسیاں ٹارگٹ کرنا چاہ رہی ہیں،اب اس کی preemption کیلئے گورنمنٹ آف آزاد کشمیر نے حفاظتی اقدامات کرنا ہیں،
مہاجرین نشستوں کے خاتمے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، یہ مطالبہ بنیادی طور پر مسئلہ کشمیر کو صرف سردخانے میں دھکیلنےکیلئے نہیں بلکہ دفن کرنے کے مترادف ہے۔۔ اس حوالے سے یکطرفہ پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔۔
عوامی ایکشن کمیٹی منظم جماعت نہیں ہے کبھی یہ نیشنلسٹ جماعتوں کے ساتھ اکھٹے ہو جاتے ہیں اور کبھی یہ ان سے علیحدگی کا اعلان کردیتے ہیں ، اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے ۔۔
وزیراعظم چوہدری انوارالحق کا کہنا تھا کہ ایکشن کمیٹی میں اب ایک ایسا عنصر موجود ہے جو کھل کے ریاست کے خلاف چلتا ہے، جو افواج پاکستان کی قربانیوں کو سراہنے کی بات ہی نہیں کرتے ہیں،
اگر آج افواج پاکستان کشمیر سے ہٹ جائے تو کیا عوامی ایکشن کمیٹی بارڈر پر کھڑی ہو گی۔ معاملات ہمیشہ خوش اسلوبی سے ہی حل ہوتے ہیں ،پاک فوج آزدکشمیر کے دفاع کے لیے انگنت قربانیاں دے رہی ہے ۔
ان خیالات کا اظہار وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری انوار الحق نےدنیا نیوز کے پروگرام “ TONIGHT with SAMAR ABBAS” میں اینکر پرسن ثمر عباس سے گفتگو میں کیا ۔
وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری انوار الحق نے کہا کہ معاملات کو حل کرنے کی شرط اول ہی یہی ہے کہ آپ کے معاملات و مطالبات ریاست کے آئینی ڈھانچے کو کسی صورت نقصان نہ پہنچائیں اگر آپ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں ۔
آپ سوشل میڈیا پر ایسے نیریٹو بناتے ہیں جن سے انتشار اور انارکی کی بو آتی ہے تو پھر ریاست کے پاس کوئی آپشن نہیں رہتا ، پچھلے دو اڑھائی سال سے یہ “اچھا آدمی ، برا آدمی “ کا ڈرامہ رچا یا جارہا ہے۔
آزاد کشمیر میں کوئی فارم 45 یا 47 کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ، 33 لاکھ لوگوں کی نمائندگی کرنیوالی اسمبلی کو10 ہزار لوگ یرغمال بنانے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟
میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ انھیں خود بھی پتا ہے کہ ان کے اندر کون ففتھ کالمنسٹ ہے اور ففتھ جنریشن وار کرنے والے کون ہیں؟ کن کے تانے بانے کہاں ملے ہوئے ہیں؟ اب یہ کہتے ہیں کہ اس بات کا ثبوت فراہم کیا جائے ؟ جب آپ ملکی سلامتی کو کمپرومائز کرنے کی گفتگو کرتے ہیں ۔
ریاست کے سٹیٹ انفراسٹرکچر اور آئینی ڈھانچے کو سوالیہ نشان بنانے کی کوشش کرتے ہیں ، جس میں آپ کی کوئی قربانی نہیں ہے لیکن آپ کے آباؤ اجداد کی قربانی ضرور شامل ہو سکتی ہے ،
دو چیزیں ہوتی ہے کہ مکمل طور پر سخت گیر “را”کا ایجنٹ کہلانا اور یا پھر ایک دشمن ملک کے عزائم کی تکمیل کیلئے فیسلیٹیشن فراہم کرنا ہے اس کا فیصلہ آزاد کشمیر کی عوام پر چھوڑ دیتے ہیں ۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ مہاجرین نشستوں کی وجہ سے ہمارے 12 دوست آزاد کشمیر کے وسائل پر قابض ہونے کی کوشش کرتے ہیں یا ان کا بے رحمی سے استعمال کرتے ہیں۔۔
یہی مہاجرین تھے جن کے آباؤ اجداد نے قربانیاں دے کر اس خطے میں تحریک آزادی کشمیر کی بنیاد ڈالی، 19 جولائی 1947 کو جو قرارداد پیش کی گئی اس میں ان مہاجرین کا خون شامل ہے۔۔
قائدا اعظم محمد علی جناح کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے، خورشید ملت، خورشید حسن خورشید وہ کون تھے؟ جو ہمارے پہلے سپیکر تھے شیخ منظر مسعود وہ کون تھے؟ اگر آپ کو دو تین مہاجرین نمائندوں کے کردار سے کوئی اختلاف ہے تو آئندہ آنے والے انتخابات میں عوام ان کو مسترد کر سکتے ہیں لیکن آپ اس بہانے قضیہ کشمیر یا تحریک آزادی کشمیر کی جڑوں کو ہی کھوکھلا کرنا شروع کر دیں! تو کون آپ کو یہ کرنے کی اجازت دے گا؟
لاکھوں شہیدوں کا لہو اس تحریک میں شامل ہے، اس میں ہمارے آباؤ اجداد کی قربانیاں شامل ہیں اور یہ جتنا سٹیٹ سٹرکچر آج آپ دیکھ رہے ہیں۔۔
اگر اس سے قضیہ کشمیر کو علیٰحدہ کر دیا جائے تو پھر تو یہ ساڑھے چار لاکھ مربع میل کا قصہ ہے، پھر تو یہ سارے نظام کو اپ کو دوبارہ بنانا پڑے گا، یہ ایک انتہائی خطرناک او ایک ایسا مطالبہ ہے کہ شاید کرنے والوں کو بھی پوری طرح اندازہ نہیں ہے کہ وہ کیا مانگ رہے ہیں، یہ تو انوکھا لاڈلا ہے وہ کھیلنے کو چاند مانگنے سے بھی آگے چلا گیا ہے،
یہ مطالبہ بنیادی طور پر مسئلہ کشمیر کو صرف سر دخانے میں دھکیلنے کے لئےنہیں بلکہ دفن کرنے کے مترادف ہے، اور اس کے پورا کرنے کا کوئی سوال نہیں ہے، اور اس کو پورا کرنا کس نے ہے؟
یہ ساری ایکشن کمیٹی وہ مل کر بھی صرف ایک صورت میں اس کو پورا کر سکتی ہے کہ وہ آئیں، اتنی عوامی قوت کے ساتھ آئیں کہ اگر رجسٹرڈ پارٹی کی صورت میں الیکشن لڑیں، دو تہائی اکثریت حاصل کریں آزاد کشمیر کی اسمبلی میں اگر یہ ترمیم کر سکیں تو کر لیں یہ تو اس کا آئینی راستہ ہے۔لیکن آپ تمبر کے ڈنڈے دکھا کے آزاد کشمیر کی اسمبلی کو یرغمال بنا کے کہیں تو ممکن نہیں۔۔
آپ نے عرض کی ہے کہ ریاست نے پہلے دو دفعہ ان کے مطالبے مانے، کیوں مانے؟ اس لیے مانے کہ شاید ان مطالبوں کے ماننے سے اگر بھلائی مطلوب ہے تو وہ ہو جائے کوئی حرج نہیں، پولیٹیکل ڈائیلاگ میں کبھی بھی حکومت کی ضد نہیں ہوتی لیکن جب آپ سکیورٹی ڈاکٹرائن کو، ریڈ لائنز کو بھی کراس کر جائیں، آپ نے دوسری طرف اشارہ کیا کہ فوج کے خلاف گفتگو کرتے ہیں، اب جن کو اس معرکہ حق کے بعد بھی محافظ افواج اور قابض افواج میں فرق معلوم نہیں ہے، تو ان عقل کے اندھوں کیلئے میں کیا الفاظ استعمال کر سکتا ہوں؟ ا
ور میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ آپ اس ایکشن کمیٹی کی قیادت کے سارے الفاظ پچھلے دو تین چار روز سے دیکھیے، ہمیں پاکستان سے کوئی اعتراض نہیں ہے ہمیں فوج سے کوئی اعتراض نہیں ہے، ہمارا تو جھگڑا اس قیادت سے ہے، جب آپ کا فوج سے کوئی جھگڑا نہیں ہے، آپ کا پاکستان سے کوئی جھگڑا نہیں ہے، تو پھر آپ کا پاکستانی فورسز سے یہ مطالبہ کرنا، ہمارے نوجوانوں کا تناسب چیک کر لیں کہ مسلح افواج میں کتنا ہے؟
اسلام اباد پولیس میں کتنا ہے؟اور مسلح افواج میں جو کشمیری جنرلز ہیں آپ ان کی تعداد باقی پاکستان کی مناسبت سےگن لیں وہ کیا ہے؟ یہ ساری اونرشپ دی کس نے ہمیں؟ مملکت خداداد پاکستان نے، آٹا ادھر سے، چینی ادھر سے، اشیاء خورو نوش ادھر سے، ہمارے دریاؤں کا سارا رخ ادھر سے، فطرت ہمیں یہ کہتی ہے کہ ہم علیحدہ نہیں ہو سکتے، اگر یہ بیانیہ آپ صرف سیاسی دکان چمکانے کے لیے کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں اعتراض تو کوئی نہیں لیکن اگر یہ فورسز آئیں تو نہ بھئ نہ، آپ نے پچھلے دنوں دیکھا کہ ان کے ایک لیڈر نے جب پونچھ میں ایک واقعہ ہوا، وہاں جو ذمہ داران تھے، ملزم تھے، وہ جو گرفتار کیے گئے،وہاں یہ کہا گیا کہ درخت پھینک دیئے جائیں، آزاد کشمیر پولیس کا داخلہ بھی بند کر دیا جائے، تو معاملہ پھر صاف ہو گیا کہ ایف سی یا پی سی کا تو جھگڑا ہی نہیں ہے، جھگڑا یہ ہے کہ سٹیٹ رٹ کو چیلنج کیا جائے، ریاست کی رٹ کو ختم کیا جائے، جتھوں کی صورت میں اپنے مطالبات طاقت کے زور پر منوائیں، تو یہ جو عزائم ہیں یا یہ جو ایجنڈا ہے، یہ کسی دشمن کا ایجنڈا تو ہو سکتا ہے یہ کسی محب وطن کشمیری کا ایجنڈا نہیں ہو سکتا،
ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ اگر میں آزادکشمیر کی سٹریٹیجک انسٹالیشنز، حساس تنصیبات بھی بے یارو مددگار چھوڑ دوں، تو پھر یہ “را” کا ایجنڈا نہیں تو کیا ہے؟ اور جب اس پر گورنمنٹ نے رسپانس کیا، انہوں نے وہ پوسٹیں ڈیلیٹ کر دی، اسی طرح ہی ایف سی، پی سی بھی آزاد کشمیر میں، ان کے ایک لیڈر کی آج کی گفتگو آپ سن لیں آزاد کشمیر پر حملہ تصور کیا جائے گا
یہ خدانخواستہ ہندوستانی فوج ہے، جو آزاد کشمیر پر حملہ تصور کیا جائے گا؟ جب پاکستانی ادارے جن میں کشمیری نوکریاں کر رہے ہیں، ترقی کے تمام مواقع ان کو حاصل ہیں، صرف اسلام اباد میں تقریباً 25 سے 30 ہزار آزادکشمیر کے نوجوان مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں،
خیبر پختونخوا سے لے کر کراچی تک ہمارے لوگ اپنے روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں، کبھی کوئی تعصب نہیں برتا گیا، تو پھر یہ بات کرنی کہ وہ ادارے جو لاء اینڈ آرڈر کے ذمہ دار ہیں، کل اگر مثلاً یہ اس سے بڑھ کر ایک مطالبہ اور کر دیتے ہیں کہ پاکستانی افواج بھی چلی جائیں تو پھر “معرکہ حق”، پاکستانی فوج کی جگہ انہوں نے لڑنا تھا؟ یہ ایک ایسا آوارہ قسم کا بیانیہ ہے کہ اگر اس دفعہ اس کا قلع قمع نہ کیا گیا تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ پھر قومی سلامتی کے سارے تقاضے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
مزید یہ بھی پڑھیںعوامی ایکشن کمیٹی کو بڑا دھچکا! 29 ستمبر کی کال مسترد:دھیر کوٹ کے تاجروں کا تمام بازار کھلے رکھنے کا اعلان