قیام پاکستان کے وقت جب پاکستان کا قومی ترانہ تیار کیا گیا

اسلام آباد(کشمیر ڈیجیٹل)پاکستان کا قومی ترانہ قیامِ پاکستان کے وقت فوری طور پر دستیاب نہیں تھا۔ ابتدا میں صرف ایک حب الوطنی نظم استعمال کی جاتی تھی۔ 1949

میں حکومتِ پاکستان نے قومی ترانے کے لیے موسیقی ترتیب دینے کا فیصلہ کیا اور احمد غلام علی چغتائی کی تیار کردہ دُھن کو منتخب کیا گیا، جسے 1950 میں پہلی بار بیرونِ ملک سفر پر جانے والے پاکستانی وفد کے لیے بجایا گیا۔

1952 میں حفیظ جالندھری نے قومی ترانے کے بول تحریر کیے، ان اشعار کو 1954 میں منظوری ملی اور دُھن کے ساتھ ملا کر مکمل ترانہ بنا، 13 اگست 1954 کو قومی ترانے کو سرکاری طور پر اپنایا گیا، ترانے کی دُھن ایرانی، عربی اور ترکی موسیقی سے متاثر ہے جبکہ اس کے بول فارسی اور اردو زبانوں کا حسین امتزاج ہیں۔

قومی ترانہ مختلف مشہور گلوکاروں نے ریکارڈ کیا، جن میں ایم اے راحت، ناصر بیگ، اختر وسیم و نجم آرا سمیت دیگر کی آوازیں شامل ہیں۔

نجم آرا کے مطابق یہ ترانہ 38 سیکنڈ پر مشتمل ہے اور دنیا کے چند سب سے خوبصورت اور جامع قومی ترانوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے پہلی بار ریڈیو پاکستان کے لیے اسے گایا تھا اور وہ جذبہ بیان نہیں کرسکتیں کہ کتنی خوشی کی بات تھی۔

قومی ترانے کا انعام پانچ ہزار روپے
حکومتِ پاکستان کی جانب سے ایک کمیٹی ترتیب دی گئی جس کو متعدد شاعروں کے ترانوں میں سے کوئی ایک دھن منتخب کرنے کا کام سونپا گیا۔ مقابلے میں جیتنے والے شاعر اور موسیقار کے لیے انعام کے طور پر پانچ، پانچ ہزار کی رقم مختص کی گئی۔

تقریباً 723 گانوں میں سے پاکستان کے موجودہ قومی ترانے کا انتخاب کیا گیا جو فارسی زبان میں لکھا گیا۔

قومی ترانہ پڑھنے والے گلوکار
خوبصورت الفاظ اور دھن کو سریلے انداز میں قوم کے کانوں تک پہنچانے والے نامور گلوکاروں میں نجم آرا، احمد رشدی، کوکب جہاں، نسیمہ شاہین، شمیم ​​بانو، رشیدہ بیگم، زوار حسین، غلام دستگیر، اختر عباس، انور ظہیر اور اختر وصی شامل ہیں۔

قومی ترانہ سرکاری سطح پر کب نشر ہوا؟
پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے وقت ٹیلیوژن کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ لہذا ریڈیو پاکستان پر پہلی بار سرکاری سطح پر قومی ترانہ سن 1954 میں نشر ہوا جو جمہ کا مبارک دن تھا۔

ٹیلی وژن کی نشریات کا آغاز پاکستان میں 1964 میں ہوا جس کے بعد حب الوطنی اور پاکستان کے حصول کے راستوں میں آںے والی رکاوٹ اور کامیابیوں پر ڈرامہ نگاری کی گئی اور متعدد پروگرام ترتیب دیے جانے لگے۔

قومی ترانے میں موسیقی کے کتنے آلات اور دُھنیں استعمال کی گئیں؟
وطنِ عزیز پاکستان کے قومی ترانے میں موسیقی کے 21 آلات اور 38 مختلف دُھنیں یا ٹونز شامل ہیں۔ وقت کا دورانیہ ایک منٹ 20 سیکنڈ ہے۔

پاکستان کے قومی ترانے کی تاریخ
دسمبر 1948 میں، پاکستان کی نئی تشکیل شدہ حکومت نے قومی ترانہ کمیٹی (NAC) نیشنل اینتھم کمیٹی کی بنیاد رکھی۔ اور انہیں پاکستان کے سرکاری قومی ترانے کے لیے موسیقی اور دھن ترتیب دینے کا کام سونپا گیا۔ NACکی صدارت شیخ محمد اکرام، سیکرٹری اطلاعات اور ممبران میں احمد غلام علی چھاگلہ، سردار عبدالرب نشتر اور حفیظ جالندھری سمیت کئی شاعر، سیاستدان اور موسیقار شامل تھے۔

کمیٹی نے ابتدائی طور پر کچھ ایسا کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ جس نے وطن عزیز کی خاطر قربانی دینے والے لوگوں کی محنت اور قربانیوں کے ساتھ انصاف کیا جو ملک کے معرضِ وجود میں آنے کا باعث بنے۔ پھر 1950 میں انڈونیشیا کے صدر مملکت سوکارنو نے پاکستان کا دورہ کیا۔ بدقسمتی سے، پاکستانی حکام کے پاس ایسی دھن نہیں تھی۔ جسے وہ اپنے وطن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے استعمال کر سکتے تھے جب ایک غیر ملکی رہنما شہر میں تھا۔ اس واقعے نے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اور اسی لیے جب شاہ ایران کا دورہ متوقع تھا تو حکومت پاکستان نے NAC پر زور دیا کہ وہ قومی ترانہ پیش کرے۔ آخر کار، سینکڑوں اندراجات میں سے احمد چھاگلا کی ترتیب کردہ دھن کا انتخاب کیا گیا جسے اگست 1950 کو سرکاری طور پر اپنایا گیا۔

شاہِ ایران کا دورہ پاکستان
یکم مارچ 1950 کو جب ایران کے شاہ نے پاکستان کا دورہ کیا تو قومی ترانے کی دھن بجائی گئی۔

دو سال بعد 1952 میں حفیظ جالندھری کی لکھا ہوا ترانہ 723 اندراجات میں سے منتخب کی گئیں۔ یہ ایک تاریخی لمحہ تھا جب 13 اگست 1954 کو قومی ترانہ ریڈیو پاکستان پر پہلی بار نشر ہوا۔

قومی ترانے کا نیا ریکارڈ
سن 2011 میں 5,857 لوگوں نے کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ایک ساتھ قومی ترانہ گانے کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا۔

پاکستان کے قومی ترانے کی منفرد موسیقی
پاکستان کا قومی ترانہ ایک سریلی، دل کو گرما دینے والی دھن ہے۔ جس میں فارسی کی خوبصورت شاعری کے تین بند شامل ہیں۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ کمپوزیشن مشرق اور مغرب کا انوکھا امتزاج ہے۔

محبت بھرے شعروں پر مبنی دھن دل کی گہرائیوں میں سرائت کرتی ہے۔ جزبہ ایمانی کو ایک نئی امنگ دے جاتی ہے۔ جس سے قوم کا فخر سے بلند سر اپنے ملک کی خاطر قربان ہونے سے نہیں ڈرتا۔ بلکہ حب الوطنی کے جزبے سے سرشار وطن کے ایک اشارے پر کٹ مرنے کو تیار رہتا ہے۔

Scroll to Top