اسلام آباد(کشمیر ڈیجیٹل رپورٹ)مقبوضہ جموں و کشمیر کے محکمہ داخلہ (ہوم ڈیپارٹمنٹ) نے ایک سرکاری نوٹیفکیشن کے ذریعے 25 ایسی کتابوں پر پابندی عائد کر دی جنہیں ’’جھوٹا بیانیہ‘‘، ’’علیحدگی پسندی‘‘ اور ’’ریاست مخالف جذبات‘‘ کو فروغ دینے کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔
ان کتابوں کے مصنفین میں اے جی نورانی ، انگانا چٹر جی۔ ارون دھتی رائے ، وکٹوریہ شوفیلڈ،کرسٹوفر سنیڈن ، ڈاکٹر شمشاد احمد ، اور مولانا مودودی مرحوم شامل ہیں ان کتابوں کی بھارت میں دوبارہ اشاعت اور فروخت پر پابندی ہوگی جبکہ پہلے سے موجود کتابیں ضبط کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔
ضبط کی جانے والی کتابوں میں کشمیر کی تاریخ اور اس کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت ، انسانی حقوق کی صورتحال پر تحریر شدہ کچھ معروف کشمیری، بھارتی اور عالمی مصنفین کی کتابیں شامل ہیں۔م
صنفین میں ، محمد یوسف صراف، حفصہ کنجوال، ڈاکٹر عبدالجبار گوکھامی، ایسر بتول ، سیمار قاجی ، اے جی نورانی ، انگانا چٹر جی۔ ارون دھتی رائے ، وکٹوریہ شوفیلڈ،کرسٹوفر سنیڈن ، ڈاکٹر شمشاد احمد ، عائشہ جلال ، ڈاکٹر آفاق ، سمنترا بوس، رادھیکا گپتا، اطہر ضیا، انورادھا بھسین ،انکج مشرا،ہلال بھٹ، سنتھیا محمود ، سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر محمد یوسف صراف مرحوم ، جماعت اسلامی کے بانی ابو الاعلی مودودی مرحوم ،سیما قاضی، عبدالجبار گوکھامی، حسن البنا شہید اور طارق علی شامل ہیں۔۔
یاد رہے کہ کشمیری غیر قانونی بھارتی تسلط کے خاتمے اور اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ حق خود ارادیت کے حصول کیلئے جدوجہد کر رہے ہیںلیکن بھارت ان کی آواز پر کان دھرنے کے بجائے وحشیانہ ہتھکنڈوں سے انکی جدوجہد کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔
مودی ھکومت نے مقبوضہ علاقے میں اظہار رائے کی آزادی کا حق مکمل طو رپر سلب کر رکھا ہے ۔ کشمیریوں کا دکھ درد بیان کرنے والے ان مصنفیں کی تصانیف کی ضبطی بھارت کی ہٹ دھرمی اور غیر حقیقت پسندانہ طرزعمل کا مظہر ہے۔
معروف کشمیر صحافی سید خالد گردیزی کے مطابق اس اقدام کو بھارتی حکومت کی جانب سے وادی میں اظہارِ رائے اور علمی مواد پر کنٹرول کی نئی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
نوٹیفکیشن کا متن
بھارتی حکومت کے مطابق، تحقیقاتی شواہد اور انٹیلیجنس رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ ان کتابوں کے ذریعے نوجوانوں میں شدت پسندی، دہشتگردوں کی تعریف، سکیورٹی اداروں کی کردار کشی اور علیحدگی پسند جذبات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ان کتابوں کے مواد نے نوجوانوں کو ’’قربانی، مظلومیت اور دہشت گردوں کی ہیرو کے طور پر تصویر کشی‘‘ جیسے نظریات سے متاثر کیا۔
یہ کتابیں بھارتی شہری تحفظ قانون 2023 (Bhartiya Nagarik Suraksha Sanhita 2023) کی دفعہ 98 کے تحت ضبط کی جائیں گی
جبکہ بھارتی نیائے سنہیتا 2023 (Bhartiya Nyaya Sanhita 2023) کی دفعات 152، 196 اور 197 کے تحت ان کتابوں کے مصنفین، پبلشرز یا تقسیم کاروں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔
پابندی کی زد میں آنے والی چند اہم کتابیں اور مصنفین:
1۔کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں۔۔ مرتبین: پیوتر بالسیرووچ اور اگنیئزسکا کوشیزوسکا
2۔کشمیر کی آزادی کی جدوجہد از محمد یوسف سراف
3۔کشمیر کو نوآبادی بنانا: ریاستی تشکیل بھارتی قبضے کے تحت از حفصہ کنجوال (اسٹینفورڈ یونیورسٹی پریس)
4۔کشمیر کی سیاست اور ریفرنڈم۔ ڈاکٹر عبدالجبار گوکھامی
5. *کیا تمہیں کنن پوش پورہ یاد ہے؟ از عصار بتول و دیگر
6 ۔مجاہد کی اذان ، امام حسن البنا شہید (مرتب: مولانا محمد عنایت اللہ سبحانی)
7۔الجہاد فی الاسلام ۔۔۔ از مولانا مودودی
8۔۔آزاد کشمیر۔۔ کرسٹوفر اسنیڈن
9۔۔کشمیر میں قبضے کے خلاف مزاحمت۔۔ ازہیلے ڈشنسکی، آتھر ضیا، منہ بھٹ و دیگر
10۔۔جمہوریت اور قوم کے درمیان (کشمیر میں خواتین اور عسکریت پسندی) از سیما قاضی
11۔۔متنازعہ زمینیں ۔۔از سمنترہ بوس
12۔۔مستقبل کی تلاش میں (کشمیر کی کہانی) از ڈیوڈ دیوداس
13۔۔کشمیر تنازعہ: بھارت، پاکستان اور نہ ختم ہونے والی جنگ ۔۔۔ وکٹوریا شوفیلڈ
14۔۔کشمیر تنازعہ 1947 تا 2012 از۔۔اے جی نورانی
15۔۔کشمیر چوراہے پر (اکیسویں صدی کے تنازعے کا احوال) ۔۔از سمنترہ بوس
16۔۔ایک منہدم ریاست (آرٹیکل 370 کے بعد کشمیر کی ان کہی کہانی)۔۔از۔۔ انورادھا بھاسن
17۔۔۔گمشدگی کی مزاحمت (کشمیر میں فوجی قبضہ اور خواتین کی سرگرمی) از آتھر ضیا
18۔۔دہشتگردی کا سامنا از اسٹیفن پی کوہن (مرتب: معروف رضا)
19۔۔۔قید میں آزادی (کشمیر کی سرحدوں پر شناخت کی جدوجہد) از رادھیکا گپتا
20۔۔کشمیر: آزادی کا مقدمہ از طارق علی، ہلال بھٹ، اروندھتی رائے و دیگر
21۔۔۔آزادی ۔۔ از۔۔ اروندھتی رائے
22۔۔ امریکہ اور کشمیر از ڈاکٹر شمشاد شان
23 :کشمیر میں قانون اور تنازعہ کا حل۔۔ پیوتر بالسیرووچ اور اگنیئزسکا کوشیزوسکا
24۔ تاریخِ سیاست کشمیر از ڈاکٹر آفاق
25،۔کشمیر اور جنوبی ایشیا کا مستقبل مرتبین: سگاتا بوس اور عائشہ جلال
عوامی و دانشور حلقوں کا ردعمل
مصنفین اور علمی حلقے اس فیصلے کو آزادی اظہارِ رائے اور علمی آزادی پر حملہ قرار دے رہے ہیں۔ خاص طور پر وہ کتابیں جو عالمی جامعات اور مشہور اداروں سے شائع ہوئیں، ان پر پابندی شدید تنقید کی زد میں ہے۔
بھارتی حکومتی موقف:
بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نوجوانوں کو شدت پسندی سے بچانے، علیحدگی پسند بیانیے کو روکنے اور قومی سلامتی کے تحفظ کیلئے ناگزیر تھا۔
راولاکوٹ، حقِ ملکیت و حکمرانی کانفرنس، ریاست گیر لاک ڈاؤن کا اعلان