راجہ فاروق حیدر ن لیگی رہنما شوکت علی شاہ کی گرفتاری پر برہم، دھرنا دینے کا اعلان

مظفرآباد(کشمیر ڈیجیٹل)آزادجموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی سیکرٹریٹ کے اندر سے سابق وزیر اور 4 بار کے ممبر اسمبلی سید شوکت شاہ کی گرفتاری اور پولیس بلانے کے معاملے پر سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان کی ایوان کے اندر نکتہ اعتراض پر سپیکر کی اجازت سے سخت گفتگو،شعر وشاعری کے ذریعے حکومتی بینچوں پر تقید کے نشتر چلادیئے اور ممبرا ن اسمبلی کو کٹھ پتلیاں قرار دیدیا،

مہاجر ممبران اسمبلی کو آئینی تحفظ دینے اور موجودہ قائد ایوان انوارالحق کو منتخب کرنے کے لیے اپنی 40سالہ سیاسی زندگی میں سب سے بڑا گناہ تسلیم کرتے ہوئے مہاجر ممبران اسمبلی کے کردار کے مطابق انہیں دریا کے بجائے نالہ لئی میں پھینکنے کے بیان کی تصدیق کردی۔دریا کا پانی صاف ہوتا ہے یہ گند دریا کو بھی خراب کرے گا۔۔

فاروق حیدر نے تماشہ ختم ہونے کا انتظار کے حوالے سے شعر بھی پڑھے اور سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج میں شعر درست لکھ کر لایا ہوں آج آپ کو اعتراض نہیں ہوگا۔سابق وزیراعظم نے اس موقع پر اپنی گفتگو کا آغاز ان اشعار سے کیا
بکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشا ختم ہو گا
میرے معبود آخر کب تماشا ختم ہو گا
چراغِ حجرہ درویش کی بجھتی ہوئی لو
ہو ا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہو گا
کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں
نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہو گا
کہانی آپ اُلجھی ہے کہ اُلجھائی گئی ہے
یہ عقدہ تب کُھلے گا جب تماشا ختم ہو گا
یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشا ختم ہو گا
تماشا کرنے والوں کو خبر دی جا چکی ہے
کہ پردہ کب گرے گا کب تماشا ختم ہو گا

راجہ فاروق حیدر کے توجہ دلانے پر چوہدری لطیف اکبر نے معاملہ کی تحریری شکایت سپیکر کے پاس جمع کروانے پر تحقیقات اور ذمہ داران کے تعین کی رولنگ دیدی

۔راجہ فاروق حیدر خان نے سپیکر کی اجازت سے نکتہ اعتراض پر سپیکر کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ بجٹ پیش کرنے والے دن سابق ممبر اسمبلی سید شوکت شاہ ان کے ہمراہ اسمبلی سیکرٹریٹ میں آئے جہاں میں صدر جماعت کے پاس چلا گیا جو سپیکر چیمبر میں بیٹھے تھے اس دوران پتاچلا کہ سابق ممبر اسمبلی سید شوکت شاہ کو پولیس اور انتظامیہ نے بالائی منزل پر اپنی تحویل میں لے رکھا ہے،ہم وہاں موقع پر پہنچے،وزیر اوقاف بھی موجود تھے۔۔

سید شوکت شاہ کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے ایک تحریری نوٹس سیکرٹری اسمبلی کو دے رکھاتھا کہ عاصم شریف بٹ نام کا ایک شخص جعلی سٹیٹ سبجیکٹ ثابت ہونے کے باوجود ایوان کے اندر بیٹھا ہوا ہے جو قانون کی خلاف ورزی ہے جسے ایوان کے باہر نہ نکالا گیا تو احتجاجی دھرنا دیں گے۔۔۔۔

حکومت نے پہلے کابینہ کے ذریعے جعلی سٹیٹ سبجیکٹ کو تحفظ دینے کی ناکام کوشش کی گئی،قانون کے تحت اسمبلی سیکرٹریٹ کی حدود سپیکر کے دائرہ اختیار میں ہے جہاں سے کسی قاتل کو بھی گرفتار کرنے کے لیے سپیکر کی اجازت چاہیے ہوتی ہے۔

اس معاملے میں سپیکر سے اجازت کیوں نہیں لی گئی اور یہ کہ پولیس کس کی اجازت سے قانون ساز اسمبلی سیکرٹریٹ کے اندر داخل ہوئی یہ استحقاق کا معاملہ بھی ہے لیکن استحقاق کمیٹی موجود نہیں،یہاں اکثریت کی بنیاد پر فیصلے ہورہے ہیں،بجٹ بھی منظور ہورہا ہے اور اسمبلی بھی چل رہی ہے،بتایا جائے کہ ایک ایسا شخص جس کے خاندان کی تحریک آزادی کشمیر اور تکمیل پاکستان کے لیے گراں قدر خدمات ہیں،

اس کاخاندان آج بھی مقبوضہ کشمیر میں انتہائی معتبر اور محترم ہے،اس کے خاندان کے ایک فرد نے محبوبہ مفتی کو 3 لاکھ ووٹوں سے شکست دی،اس خاندان کے فرد کے والد کی شادی کا معاملہ پانچ سال اس لیے زیرالتواء رہا کیونکہ انہوں نے مسلم کانفرنس چھوڑنے سے انکار کیاتھا،کیا ان کی برادری کا کم ہونا جرم ہے جو سلوک اور رویہ ان کے ساتھ اپنایا گیا کسی بڑی برادری کے فرد کے ساتھ ایسا سلوک ممکن ہوسکتاہے اور وہ لوگ جو پاکستان کے لیے نسل در نسل قربانیاں دے رہے ہیں

انہیں پاکستان سے متنفر کیوں کیا جارہاہے،اس طرح کے طرز عمل کی کسی صورت اجازت نہیں دی جاسکتی۔راجہ فاروق حیدر خان نے سپیکر قانون ساز اسمبلی سے مطالبہ کیا کہ معاملے کا نوٹس لیں اور کارروائی کریں جس پر قائد ایوان چوہدری انوارالحق ایوان میں داخل ہوئے اورانہوں نے راجہ فاروق حیدر خان کے نکتہ اعتراض کے بعد بات کرنا چاہی اور راجہ فاروق حیدر خان کے نکتہ اعتراض پر طویل گفتگو پر قواعد انضباط کار کا حوالہ تو فاروق حیدر نے کہا کہ وہ سپیکر کی اجازت سے بات کررہے ہیں جس معاملے پر وہ بات کررہے ہیں یہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو خالصتاً سپیکر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے

بااثر شخصیات قانون پر بھی حاوی ، ایس ایچ او سول سیکرٹریٹ سہیل خان کو او ایس ڈی کردیا

Scroll to Top