احتساب بن گیا خواب،پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا وجود ختم، آڈیٹر جنرل کی رپورٹ تیسرے سال بھی جاری نہ ہو سکی

مظفرآباد(ذوالفقار علی،کشمیر انوسٹی گیشن ٹیم)آزاد جموں و کشمیر میں مسلسل تیسرے سال آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی سالانہ آڈٹ رپورٹ اسمبلی میں پیش نہ کی جا سکی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں اب تک پبلک اکاؤنٹس

کمیٹی شکیل ہی نہیں دی گئی جو اس رپورٹ اور جائزے اور اس پر عملدرآمد کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ ماہرین اور سینئر سرکاری عہدیدار اس صورت حال کو آئینی، انتظامی اور احتسابی بحران قرار دے رہے ہیں، جس کے جمہوری عمل اور عوامی اعتماد پر دور رس اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

یہ ایک طے شدہ آئینی و انتظامی عمل ہے کہ آڈیٹر جنرل ہر سال حکومتی اخراجات کا آڈٹ مکمل کر کے رپورٹ تیار کرتا ہے، جو آزاد کشمیر کے صدر کو پیش کی جاتی ہے۔

صدر یہ رپورٹ اسمبلی میں بھیجتے ہیں جہاں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اس کا تفصیلی جائزہ لیتی ہے، مختلف محکموں کو طلب کر کے وضاحتیں طلب کی جاتی ہیں، اور مالی بے ضابطگیوں پر کارروائی کی سفارشات مرتب کی جاتی ہیں۔ اس تمام عمل کے مکمل ہونے کے بعد رپورٹ عوام کے لیے جاری کی جاتی ہے تاکہ شفافیت اور عوامی احتساب کو یقینی بنایا جا سکے۔

لیکن آزاد کشمیر میں یہ تمام عمل 2022 سے تعطل کا شکار ہے۔ 2022-2023، 2023-2024 اور 2024-2025 کی آڈٹ رپورٹس تیار ہو چکی ہیں اور صدر کو پیش بھی کی جا چکی ہیں مگر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو پیش نہ ہوسکیں کیوں کہ اس کا وجود ہی نہیں ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ حکومت کے مالیاتی امور مسلسل تین برس سے نہ تو کسی عوامی یا پارلیمانی فورم پر زیرِ غور آئے ہیں، نہ ان پر کوئی سوال اٹھا سکتا ہے، نہ ہی کسی سے جواب طلب کیا جا سکتا ہے کہ بجٹ کہاں اور کیسے خرچ ہوا ۔

ایک سینئر افسر کے مطابق
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا قیام صرف آئینی تقاضا نہیں بلکہ ریاستی احتساب کے لیے ایک عملی ضرورت ہے۔ جب تک یہ کمیٹی وجود میں نہیں آتی، آڈٹ رپورٹس اسمبلی میں پیش نہیں ہو سکتیں، اور مالیاتی بدعنوانیوں پر کوئی کارروائی ممکن نہیں۔

ایک سابق افسر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر آڈٹ رپورٹ میں کسی افسر کے خلاف سنگین کرپشن کی نشاندہی ہو، اور وہ دورانِ سروس ریٹائر ہو جائے، تو دو سال بعد اس کی پنشن یا دیگر مراعات سے کوئی ریکوری ممکن نہیں رہتی۔ یہ قانونی خلا صرف بروقت احتساب سے ہی پُر ہو سکتا ہے۔

ایک ماہر نے کہا یہ صورتحال نہ صرف حکومتی نظام پر سوال اٹھاتی ہے بلکہ عوامی اعتماد کو بھی شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ جب اسمبلی خود اپنی نگرانی کا کردار ادا نہ کرے اور آڈٹ رپورٹس عوام کی نظروں سے چھپی رہیں، تو کرپشن، اقربا پروری اور مالی بدانتظامی کو کھلی چھوٹ ملتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا پبلک اکاؤنٹس کمیٹی جمہوری نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے اور اس کے بغیر نہ وزرا جواب دہ ہیں، نہ افسران۔ یوں ان کے مطابق سارا نظام غیر شفاف اور غیر جوابدہ ہو جاتا ہے۔
ماہرین متفق ہیں کہ آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو فوری طور پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی قائم کرنی چاہیے۔ ان کے مطابق جب تک یہ کمیٹی نہیں بنے گی، آڈٹ رپورٹس محض بند فائلوں میں دفن رہیں گی، اور عوامی فنڈز کے تحفظ کا کوئی حقیقی نظام موجود نہیں ہوگا۔

ایک اعلیٰ عہدیدار نے خبردار کیااحتساب کے بغیر حکمرانی محض نعرہ ہے اور اگر اس خلا کو فوری طور پر پُر نہ کیا گیا تو کرپشن کا خاتمہ صرف دعووں تک محدود رہے گا، اور عوام کا نظام پر اعتماد مکمل طور پر ٹوٹ جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ بحران محض تکنیکی نہیں بلکہ سیاسی، انتظامی اور اخلاقی پہلو بھی رکھتا ہے — ایک ایسا خلا جو جمہوری نظام کی بنیادوں کو کھوکھلا کر سکتا ہے، اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے۔

Scroll to Top