(کشمیر ڈیجیٹل)پاکستان کی آٹو انڈسٹری میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ رواں برس اکتوبر سے مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑیوں کے لیے 57 بین الاقوامی حفاظتی معیارات (سیفٹی اسٹینڈرڈز) لاگو کیے جائیں گے۔ یہ وہ تقاضے ہیں جو دنیا بھر میں گاڑیوں کے ڈھانچے، پرزوں، حفاظتی نظام اور مسافروں کے تحفظ کے لیے لازمی قرار دیے جاتے ہیں۔
اس سے قبل ملک میں صرف 17 بنیادی تقاضے نافذ تھے، جن میں سیٹ بیلٹ اور بریک لائٹس جیسے سادہ فیچرز شامل تھے، جبکہ ایئر بیگز اور جدید نظام کے باوجود ان پر عمل درآمد کمزور تھا۔ نئے معیارات کے بعد گاڑیوں میں ایئر بیگز، بچوں کے لیے حفاظتی نشستوں کا نظام، الیکٹرانک اسٹیبلٹی کنٹرول، اینٹی لاک بریکنگ سسٹم، ٹائر پریشر مانیٹرنگ اور فیول ٹینک کی حفاظت جیسے فیچرز لازمی ہوں گے۔
وزارتِ صنعت و پیداوار کے مطابق ان اقدامات کا بنیادی مقصد حادثات کے دوران انسانی جانوں کا زیادہ سے زیادہ تحفظ ہے۔ ان معیارات میں نہ صرف مسافروں بلکہ پیدل چلنے والوں کے تحفظ کو بھی اہمیت دی گئی ہے، جس کے تحت گاڑی کے اگلے حصے کے ڈیزائن کو اس طرح بنایا جائے گا کہ کسی حادثے کی صورت میں کم سے کم نقصان ہو۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں اب تک کئی گاڑیاں عالمی معیار پر پوری نہیں اترتیں اور حادثات میں بڑے جانی نقصان کی وجہ یہی کمی ہے۔ نئے اصولوں سے مقامی صنعت پر فوری دباؤ بڑھے گا اور گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ بھی ممکن ہے، تاہم مستقبل میں یہ فیصلے محفوظ مارکیٹ کی تشکیل اور برآمدی مواقع کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔
ان معیارات کا نفاذ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کی شرائط کے تحت کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام صرف ایک حکم نامہ نہیں بلکہ پاکستان کی آٹو انڈسٹری کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہے، بشرطیکہ قوانین ماضی کی طرح فائلوں تک محدود نہ رہ جائیں۔