سرینگر،پابندی کی شکار کتابوں کی ضبطگی کیلئے چھاپے،تاریخ مٹ نہیں سکتی،میرواعظ

سرینگر:مقبوضہ کشمیر کی حکومت کی جانب سے 25 کتابوں پر پابندی عائد کئے جانے کے بعد فورسز کتابوں کی دکانوں پر چھاپے مار رہی ہیں۔حکام نے ان کتابوں پر پابندی کی وجہ ’’علیحدگی پسندی کے جذبات اکسانا‘ ‘قرار دیا ہے۔

ممنوعہ قرار دی گئی ان کتابوں میں بکر پرائز جیتنے والی معروف مصنفہ اور انسانی حقوق کی کارکن ارون دھتی رائے، کشمیری صحافی انورادھا بھسین اور کچھ عرصہ قبل گزر جانے والے معروف انڈین ماہر قانون اے جی نورانی کی کتابیں بھی شامل ہیں۔

حکومت نے ان 25 کتابوں سے متعلق الزام عائد کیا ہے کہ ان کے مصنفین کشمیر سے متعلق ’’غلط معلومات‘‘ پھیلا کر ’نوجوانوں کو گمراہ کرنے میں اہم کردار‘‘ ادا کر رہے ہیں۔

پولیس نے اپنے بیان میں کہا کہ ’اس کارروائی کا مقصد ایسے مواد کو ہدف بنانا ہے جو علیحدگی پسند نظریات اور دہشت گردی کو اجاگر کرتا ہے۔

فروری میں بھی کشمیر کے حکام نے کتابوں کی دکانوں اور گھروں سے اسلامی تعلیمات سے مبنی کتابیں ضبط کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت کا نیا حربہ، انورادھا بھسین، اورندھتی رائے، اے جی نورانی سمیت نامور مصنفین کی 25کتابوں پر پابندی عائدکردی

حرہیت رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ یہ پابندی حکام کے عدم تحفظ اور کم فہمی کو آشکار کرتی ہے۔محققین اور مستند مورخین کی کتابوں پر پابندی لگانے سے تاریخی حقائق اور کشمیری عوام کی یادداشت کو نہیں مٹایا جا سکتا۔

ممنوع قرار دی جانے والی ان کتابوں میں وزیراعظم نریندر مودی کی بلند آہنگ ناقد اور انڈیا کی مقبول ترین مصنفہ ارون دھتی رائے کی کتاب ’آزادی‘ بھی شامل ہے۔

انڈیا کے نمایاں قانون دان اور مصنف اے جی نورانی اور لندن سکول آف اکنامکس میں سیاسیات کی پروفیسر سمانترا بوس کی کتابوں پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔

تارٰیخ دان صدیق واحد نے حکومت کے اس اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حکم آئین کے برعکس ہے جو بولنے اور اظہار کرنے کی آزادی دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’اس فہرست میں متعدد ایسی کتابیں شامل ہیں جن کے مصنفین اور ناشرین اپنے نتائج فکر کے لیے شواہد، منطق اور استدالال پر انحصار کرنے کے لیے معروف ہیں۔کیا اب اس چیز کی کوئی اہمیت باقی رہ گئی ہے۔

Scroll to Top