مظفرآباد(کشمیر ڈیجیٹل)حکومتِ آزاد کشمیر کے استحصالی رویئے کیخلاف مہاجرین جموں کشمیر 1989 نے پُرامن احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا۔
بیس کیمپ حکومت مہاجرین کو دیوار سے لگانے سے باز رہے ۔ مہاجرین جموں کشمیر 1989 کی ورکنگ کمیٹی کا اہم اجلاس ضلع باغ کی مہاجر بستی چھتر نمبر دو میں انعقاد پذیر ہوا ۔
حکومت آزاد کشمیر کے استحصالی رویئے کی شدید مزمت ! تحریک آزادی کشمیر میں اپنا سب کچھ کھپانے والے مہاجرین کے ساتھ ظالمانہ رویہ مسترد کرتے ہیں ۔
مہاجرین قیادت اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مہاجرین راہنماؤں نے کہا کہ تحریک آزادی کشمیر کے نام پر قائم بیس کیمپ حکومت گزشتہ چھتیس برسوں سے مہاجرین کشمیر کا مسلسل استحصال کر رہی ہے ۔
انکا کہنا تھا کہ شہداء کے ورثاء کشمیری قیدی ، بھارتی بربریت کا شکار زخمی اور مہاجرین کی کفالت کبھی بھی بیس کیمپ حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہیں ۔
ساڑھے تین دہائیاں گزرنے کے باوجود مہاجرین کیمپوں کی خستہ حالی ، گندگی حکومت کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے ۔ مہاجرین آج بھی شیلٹرز ، کچی بستیوں اور کرائے کے مکانات میں دو یا تین مرلہ زمینوں پر مشکل ترین زندگی جینے پر مجبور ہیں ۔
حکومت مہاجرین کو اراضی فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ مقررین نے کہا کہ بیس کیمپ حکومت موجودہ مہنگائی کے اس مشکل وقت میں عملاً مہاجرین خاندانوں کو ایک وقت کی روٹی دے رہی ہے ۔
انتہائی قلیل گزارہ الاؤنس میں مہاجرین کے خاندانوں کا گزارہ عملاً ممکن نہیں رہا ۔ مالی مشکلات کی وجہ سے بچوں کی تعلیم ، علاج معالجہ ، گھروں کے کرائے ، خوردونوش اور دیگر اخراجات پورے کرنا پہنچ سے باہر ہوچکے ہیں ۔
انہوں نے وزیراعظم آزاد کشمیر کے اعلان کے باوجود گزارہ الاؤنس میں اضافہ نہ ہونا قابل افسوس ہے ۔ اجلاس میں حکومت آزاد کشمیر کی جانب سے مہاجرین کے تئیں ناانصافی کے رویئے کی مذمت کرتے ہوئے رہنماؤں نے کہا کہ باغ کی مہاجر بستیوں کی مجموعی طور محرومیوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بیس کیمپ حکومت مہاجرین کو دوسرے درجے کا شہری سمجھ رہی ہے۔
پینے کے صاف پانی کی کمی ، سکولوں اور صحت کے مراکز کی ناپیدی ، سیوریج کے نظام کی کمی سے مہاجرین کی زندگیوں پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اجلاس میں پڑھے لکھے نوجوانوں کی بے روزگاری چھ فیصد کوٹہ پر عملدرآمد نہ ہونے پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ راہنماؤں نے تمام محکموں میں کوٹہ مختص نہ ہونے اور آسامیوں کو سکیل ایک سے مختص و مشتہر نہ کرنے کے عمل کو روزگار پر کاری ضرب قرار دیا ۔
مہاجرین نمائندگان نے قانون ساز اسمبلی میں مہاجرین 1989 کو نمائندگی کے حق سے محروم رکھنے کے عمل کو کلی طور مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس نا انصافی کو اب قبول نہیں کیا جاسکتا ۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا کہ اپنے ملک اور ریاست میں مہاجرین کشمیر کو مکمّل شہریتی حقوق اور پہچان حاصل نہیں ۔
مہاجرین کو ڈومیسائل سے محروم رکھنا اور شناختی کارڈ کی تجدید کیلئے مسلسل مشکلات کھڑی کرنا ظلم کی انتہا ہے ۔ مہاجرین راہنماؤں نے حکومت آزاد کشمیر سے مطالبہ کیا کہ وہ مہاجرین کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے مطابق مسائل حل کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے ۔
بصورت دیگر مہاجرین اپنے حقوق کی بازیابی اور تحفظ کے لیے احتجاجی تحریک کا آغاز کرنے پر مجبور ہوں گے۔ جس کے نتائج کی تمام تر زمہ داری حکومت آزاد کشمیر پر عائد ہوگی۔
مزید یہ بھی پڑھیں:محکمہ ان لینڈ ریونیو کی قلم چھوڑ ہڑتال، دفاتر اور ٹول پلازے بند کرنے کااعلان