مظفر آباد(ذوالفقار علی/کشمیر انویسٹی گیشن ٹیم )آزاد کشمیر میں سوشل پروٹیکشن پروگرام کے تحت مالی امداد کی فراہمی 16 ماہ گزرنے کے باوجود شروع نہیں ہو سکی جس کے باعث ہزاروں غریب، نادار، بیوہ، معذور اور لاوارث افراد بدترین معاشی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔
اس پروگرام کے تحت اہل قرار دی گئی ایک بیوہ خاتون نے انتہائی کربناک لہجے میں کہاکہ میرا کوئی ذریعہ معاش نہیں، گھروں میں کام کر کے بمشکل بچوں کا پیٹ پالتی ہوں۔
ان لوگوں کو کیا احساس ہوگا جو ایئرکنڈیشنڈ کمروں سے نکل کر ایئرکنڈیشنڈ گاڑیوں میں بیٹھتے ہیں۔ جو ہمیں اذیت میں رکھتے ہیں، اللہ ان کو کبھی سکون نہ دے۔
ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ ہر روز کوئی نہ کوئی ضرورت مند دفتر کا رخ کرتے ہیں تاکہ معلوم کر سکیں کہ امداد کب ملے گی۔
افسر کا کہنا تھاکہ ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ جب پروگرام شروع ہوگا،آپ کو مطلع کر دیا جائے گا۔ ان کے مطابق کئی افراد دور دراز علاقوں سے آ کر مایوس واپس لوٹ جاتے ہیں۔
محکمہ سماجی بہبود کے حکام اس تاخیر کی کوئی واضح وجہ بیان کرنے سے قاصر ہیں، البتہ ان کا کہنا ہے کہ امدادی رقم کی تقسیم کا فیصلہ سوشل پروٹیکشن بورڈ کریگا۔
آزاد کشمیر کے وزیراعظم اس بورڈ کے چیئرمین ہیں جبکہ وزیر خزانہ، وزیر سماجی بہبود، چیف سیکرٹری، سیکرٹری قانون، سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری عشر و زکوٰۃ، سیکرٹری برائے ترقی خواتین، اکاؤنٹنٹ جنرل اور 2 منتخب اراکین اسمبلی اس کے اراکین ہیں۔
قانون کے مطابق بورڈ ہر سال 30 جون سے پہلے سالانہ بجٹ کی منظوری دے گالیکن تاحال بورڈ کا کوئی اجلاس منعقد نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی بجٹ منظور کیا گیا۔ اس کے وجہ سے یہ خدشہ ہے کہ رواں مالی سال بھی اس پروگرام کا آغاز ممکن نہیں۔
ایک اور افسر نے بتایا کہ ابھی تک یہ بھی طے نہیں کیا جا سکا کہ ایک ضرورت مند خاندان یا فرد کو ماہانہ کتنی رقم دی جائے گی تاہم آزاد کشمیر کے وزیر اعظم یہ اعلان کر چکے ہیں کہ فی خاندان یا فرد کو 20 ہزار روپے ماہانہ دئیے جائیں گے۔
“کے آئی ٹی” کو حاصل معلومات کے مطابق، سوشل پروٹیکشن پروگرام کے تحت 18,161 خاندان یا افراد مالی امداد کے لیے اہل قرار دیے جا چکے ہیں۔
ایک سینئر سرکاری افسر کے مطابق سوشل پروٹیکشن فنڈ پر سالانہ متوقع منافع تقریباً ایک ارب 20 کروڑ روپے ہے۔ اگر ایک خاندان کو 20 ہزار روپے ماہانہ دئیے جائیں تو سالانہ صرف 5,000 خاندان ہی اس رقم سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
افسر نے مزید بتایا کہ یہ تاخیر اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک حکومت یا تو تمام 18 ہزار سے زائد اہل افراد کو امداد فراہم کرنے کے قابل نہیں ہو جاتی، یا مستحقین کی تعداد کم نہیں کر دی جاتی، یا امدادی رقم کو اتنا کم نہیں کر دیا جاتا کہ تمام مستحقین کو کچھ نہ کچھ دیا جا سکے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ پروگرام کے آغاز کے بعد اسے مستقل بنیادوں پر جاری رکھنا ایک بڑا چیلنج ہوگا کیونکہ ہر سال اتنا منافع حاصل ہونا ممکن نہیں جو تمام مستحقین کو مسلسل امداد دے سکے۔
انہوں نے تجویز دی کہ اگر حکومت واقعی اس پروگرام کو جاری رکھنا چاہتی ہے تو اسے سوشل پروٹیکشن فنڈ میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہوگا، بصورت دیگر اس پروگرام کو جاری رکھنا مشکل ہوگا۔
مارچ 2024 میں آزاد کشمیر حکومت نے مالی طور پر کمزور طبقات کے تحفظ کے لیے ’’سوشل پروٹیکشن آف ولنریبل پاپولیشن آرڈیننس‘‘ جاری کیا، جسے 31 مئی 2024 کو قانون ساز اسمبلی نے باقاعدہ منظور بھی کر لیا۔
قانون کے تحت بیوہ، یتیم، طلاق یافتہ خواتین، معذور، معمر افراد اور خواجہ سرا مالی امداد کے اہل قرار دئیے گئے ہیں۔
11 جولائی 2024 کو بینک آف آزاد جموں و کشمیر کی جانب سے ایک اشتہار جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ حکومت نے 9 ارب روپے سوشل پروٹیکشن فنڈ میں جمع کرا دئیے ہیں۔
اس کے بعد حکومت نے 12 اگست سے 31 اگست 2024 تک مستحقین سے درخواستیں طلب کیں۔ اس دوران ایک لاکھ 18 ہزار 825 افراد یا خاندانوں نے رجسٹریشن کرائی۔
20 دسمبر 2024 کو حکومت نے دعویٰ کیا کہ 18,161 خاندانوں یا افراد کو مالی امداد کے لیے اہل قرار دیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ جانچ پڑتال کے لیے ایک بین الاقوامی معیار کے ادارے کی خدمات حاصل کی گئیں جو سماجی و معاشی تحفظ کے شعبے میں مہارت رکھتا ہے۔
پاکستان حکومت کے ادارے کے ایک افسر نے بتایا کہ جن لوگوں نے بھی درخواستیں دیں تھی ان میں سے اکثریت ضرورت مندوں کی ہی تھی۔
البتہ ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے تقریباً 8,000 خاندان ایسے تھے جو پہلے ہی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ( بی ائی ایس پی) کے تحت مالی امداد حاصل کر رہے تھے، اس لیے انہیں خارج کر دیا گیا۔
آزاد کشمیر حکومت نے اس پروگرام کو اپنی بڑی کامیابی قرار دے کر اس کی زبردست تشہیر کی تھی لیکن دوسرا سال بھی شروع ہوگیا ابھی تک ایک روپیہ بھی کسی مستحق کو نہیں دیا گیا۔
عوامی سطح پر شدید مایوسی ہے اور مستحقین حکومت سے صرف یہ چاہتا ہے کہ وعدے پورے کئے جائیں۔