مظفرآباد( نوشین خواجہ) نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سائیکالوجی، قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے زیر اہتمام اور یورپی یونین کے تعاون سے آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی میں ایک روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا
ورکشاپ میں مرکزی موضوع نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے نفسیاتی مسائل، عدم برداشت، اور ان کے سماجی و مذہبی اثرات تھا۔اس ورکشاپ میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین تعلیم، محققین، سماجی کارکنوں اور طلباء نے شرکت کی۔
قائداعظم یونیورسٹی سے پروفیسر رائینہ افتاب نے بچوں اور نوجوانوں میں نفسیاتی دباؤ، جذباتی عدم توازن اور پرتشدد رجحانات پر تفصیلی گفتگو کی۔
پرفیسر رائینہ آفتاب کا کہنا تھا کہ بچوں کی پرورش ان کی نفسیاتی ساخت، ثقافت اور مذہبی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جائے تو ہم ایک متوازن معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔
ڈاکٹر نیلوفر اور ڈاکٹر روبینہ نے اپنی تحقیق اور تربیتی تجربات شیئر کرتے ہوئے معیارِ تعلیم اور کمیونٹی لیول پر ذہنی صحت کو نصاب اور پالیسی کا حصہ بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال نے بچوں کو ثقافتی انتشار اور خطرناک رجحانات کی طرف دھکیل دیا ہے، جس کے سدباب کیلئے والدین، اساتذہ اور پالیسی سازوں کو مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔
ورکشاپ میں اس بات پر بھی گفتگو کی گئی کہ مذہبی آئیڈیالوجی کو کس طرح سے بعض نوجوان شدت پسندی اور پرتشدد سوچ کی بنیاد بنا لیتے ہیں۔
اس ضمن میں ماہرین نے مذہب، ثقافت، اور نفسیات کے درمیان توازن قائم کرنے کے لیے مربوط پالیسی کی ضرورت پر زور دیا۔
منتظمین کے مطابق اس ورکشاپ کا مقصد حکومتی اداروں کو ایک ماڈل فراہم کرنا بھی ہے تاکہ تعلیمی اداروں، والدین، اور مقامی کمیونٹیز کے ساتھ مل کر ایک ایسا نظام وضع کیا جا سکے جو بچوں کو انتہا پسندی، نفسیاتی دباؤ، اور سماجی تنہائی سے محفوظ رکھ سکے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل یہی ورکشاپ گلگت بلتستان، اسلام آباد، خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بھی کامیابی سے منعقد کی جا چکی ہے، جسے ماہرین نے نوجوانوں کی ذہنی و سماجی بہتری کے لیے ایک اہم اقدام قرار دیا ہے۔