مظفرآباد(ذوالفقار علی،کشمیر انوسٹی گیشن ٹیم)آزاد کشمیر میں ہائی کورٹ فیصلے کے بر عکس اسمبلی میں متنازع قانون کی منظوری کے بعد آزاد کشمیر کے محکمہ لوکل گورنمنٹ نے مالی سال 2024-2025 کیلئے بچے ہوئے 03 ارب 70 کروڑ کے ترقیاتی فنڈز میں سے02 ارب 60 کروڑ روپے اراکین اسمبلی کے ذریعے خرچ کیے جائیں گے جبکہ 3000 کونسلرز اور بلدیاتی اداروں کو صرف 01 ارب 60 کروڑ روپے کی گرانٹ فراہم کی گئی ۔یہ رقم ڈیڑھ ماہ کے قلیل عرصے میں خرچ کی جائیں گے ۔
آزاد کشمیر کے محکمہ لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی کے سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق 01 ارب 59 کروڑ 03 لاکھ 10 ہزار روپے لوکل کونسلرز کو جاری کئے گئے جبکہ 69 لاکھ روپے پانچ میونسپل کارپوریشنز کو فراہم کیے گئے۔
30 اپریل کو آزاد کشمیر اسمبلی نے متنازع قانون دستورالعمل برائے ترقیاتی پروگرام لوکل گورنمنٹ و یہی ترقی آرڈیننس 2025 منظور کیا۔ اس کے دفعہ 8 کے ذیلی دفعہ (1) کے تحت منصوبوں کی نشاندہی “ممبران قانون اسمبلی (سالانہ ترقیاتی پروگرام میں ممبران قانون ساز اسمبلی کے لیے ترقیاتی فنڈز کے خلاف) ،ذیلی دفعہ (2) منتخب ممبران لوکل کونسلز( لوکل کونسل فنڈ یا حکومت کی جانب سے لوکل کونسلرز کو مہیا کردہ گرانٹ کے خلاف) اور ذیلی دفعہ (3) کے تحت مقامی آبادی ، دیہی تنظیمات اور معززیں علاقہ)۔”
اس قانون کے تحت اراکین اسمبلی کیلئے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں فنڈز مختص ہونگے جبکہ لوکل کونسلرز کو حکومت اپنے صوابدید کے مطابق لوکل کونسل فنڈز یا گرانٹ فراہم کرے گی۔
اس قانون کے دفعہ 12 ذیلی دفعہ 2 کی شق ( ج) کے مطابق ” ایسے خصوصی پروگرام یا ترقیاتی منصوبے جن کی نشاندہی ممبران قانون ساز اسمبلی کریں گے کے لیے بھی پراجیکٹ کمیٹی کی تشکیل شق الف اور شق ب کے تحت ہوگی تاہم اس پراجیکٹ کمیٹی کی توثیق متعلقہ ڈی ڈی اوز کریں گے۔
شق ( ش) کے میں کہا گیا ہے کہ” منتخب ممبران لوکل کونسلز پراجیکٹ کمیٹی یا مقامی تنظیم کی تشکیل میں حصہ تو لے سکتے ہیں تاہم وہ خود پراجیکٹ لیڈر یا چیرمین کمیٹی کے اہل نہ ہوں گے اور نہ ہی منتخب ممبران لوکل کونسل کے نام ورک آرڈر جاری ہوسکے گا۔”
واضح رہے کہ آزاد کشمیر کی حکومتیں تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1990 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 1984 میں تیار کئے گئے ایک دستاویز دستورالعمل کی بنیاد پر لوکل گورنمنٹ کے ترقیاتی منصوبوں پر اراکین اسمبلی کے ذریعے پیسہ خرچ کرتی رہی ہیں۔
31 سال بعد نومبر-دسمبر سنہ 2022 میں بلدیاتی انتخابات ہوئے لیکن اس کی باوجود دستور العمل کی بنیاد پر لوکل گورنمنٹ کا ترقیاتی بجٹ اراکین اسمبلی کے ذریعے خرچ کیا جاتا رہا۔ 2023 میں بلدیاتی نمائندوں نے اس کے خلاف ہائی کوررٹ میں رٹ دائر کی۔
سنہ 2022 میں بلدیاتی انتخابات کے بعد سے مالی سال -2022 -2023 میں لوکل گورنمنٹ کے ترقیاتی پروگرام میں 13000 منصوبے شامل کیے گئے تھے جن کی نشاندہی اراکین اسمبلی نے کی اور جن کی منظوری خود وزیراعظم دی تھی۔ یہ سلسلہ 29 فروری 2025 کو ہائی کورٹ کے فیصلہ تک جاری رہا۔
29 فروری 2025 کو ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قانون کے مطابق اراکین قانون ساز اسمبلی کا لوکل گورنمنٹ منصوبوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ دستور العمل کو کوئی قانونی حثییت نہیں ہے اور اسی کے بنیاد پر اراکین اسمبلی کو لوکل گورنمنٹ کے منصوبوں کی نشاندہی کا کردار دیا گیا۔
ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ لوکل گورنمنٹ کے سالانہ ترقیاتی پروگرام 2022-2023 میں 13000 منصوبوں کو نیے عمل کے آغاز کے لیے منسوخ نہیں کیا جاسکتا۔لیکن ساتھ ہی عدالت نے یہ کہا تھا کہ دستورالعمل کی بنیاد پر اراکین اسمبلی کے ذریعے منصوبوں کی نشاندہی اور فنڈزمختص کرنے کا عمل ایکٹ کے متعلقہ دفعات کے خلاف ہے کیونکہ اس کی کوئی قانونی بنیاد موجود نہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آزاد جموں و کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 1974 ، لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1990 اور دیگر متعلقہ نافذالعمل قوانین کی رو سےمقامی کونسلرز کو لوکل گورنمنٹ کے تحت ترقیاتی منصوبے شروع کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان کو مکمل کرنے کا خصوصی اختیار ہے اور اس مقصد کے لئے ایک وسیع ڈھانچہ فراہم کیا گیا ہے ۔
لہٰذا، آئین اور مذکورہ ایکٹ کی رو سے متعلقہ حکام اس بات کے پابند ہیں کہ تمام ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز متعلقہ بلدیاتی اداروں کو مختص اور منتقل کریں۔
ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ حکومت 1990کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ پر من و عن عمل کرے اور ترقیاتی فنڈز صرف منتخب بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے خرچ کئے جائیں۔
عدالت نے حکومت کو لوکل گونمنٹ کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے اراکین اسمبلی کو فنڈز مختص یا جاری کرنے سے روک دیا تھا۔
لیکن اس فیصلے سے قبل ہی آزاد کشمیر کی حکومت نے مالی سال 2024-2025 میں دستور العمل کی بنیاد پر اراکین اسمبلی کے ذریعے لوکل گورنمنٹ کے منصوبوں پر لگ بھگ 01 ارب روپے خرچ کیے تھے۔
عدالت نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ قانون ساز اسمبلی کو قوانین بنانے، ان میں ترمیم کرنے اور انہیں منسوخ کرنے کی اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے تاکہ انصاف، مساوات اور سماجی نظم و ضبط کو برقرار رکھا جا سکے۔
عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ آزاد جموں کشمیر کے عبوری آئین 1974 ، لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1990 اودر دیگر متعلقہ قانونی دفعات کے تحت قانون ساز اسمبلی کے اراکین کو لوکل گورنمنٹ کی ترقیاتی منصوبوں کی نشاندہی یا مختص کرنے کے معاملات میں کسی قسم کا کوئی قانونی اختیار نہیں ہے ۔
عدالت کے واضح ہدایت کے باوجود چوہدری الوارلحق کی مخلوط حکومت نے عدالت کے فیصلے کے صرف دو ماہ بعد اسی دستورالعمل کو اسمبلی سے منظور کراکے قانون بنایا جس کے بارے میں عدالت نے کہا تھا کہ اس کی کوئی قانونی حثییت نہیں ہے اور یہ کہ ترقیاتی فنڈز بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے خرچ کرنے کی ہدایت کی تھی۔
مخلوط حکومت میں شامل تمام جماعتوں— پاکستان تحریک انصاف ( فارورڈ بلاک)، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی —نے اس قانون کی حمایت کی۔ پی ٹی آئی، جو خطے میں بلدیاتی نظام کی داعی سمجھی جاتی ہے، اس موقع پر حکومتی صف میں شامل رہی۔
واضح رہے کہ پہلے بھی اراکین اسمبلی کے ذریعے پیسے خرچ ہوتے تھے اور اب بھی ان ہی کے ذریعے خرچ ہوںگے۔ فرق یہ ہے پہلے بغیر کسی قانون کے خرچ ہورہے تھے اور اب قانون کا سہارا لے کر خرچ کیے جائیں گے۔
دنیا نے دیکھا کئی گنا بڑی طاقت کو گھٹنے ٹیکنے میں چند گھنٹے لگے، وزیر اعظم شہبازشریف