واشنگٹن: امریکا میں امیگریشن پالیسی کے حوالے سے ایک غیر معمولی پیشرفت سامنے آئی ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مالی سال 2026 کیلئے پناہ گزینوں کے ویزا کوٹے میں نمایاں کمی کرتے ہوئے صرف 7 ہزار 500 افراد کے لیے منظوری دینے کا اعلان کیا ہے ۔
یہ فیصلہ 1980 کے ریفیوجی ایکٹ کے بعد پہلی مرتبہ اس قدر کم حد مقرر کیے جانے کی مثال ہے ۔ موجودہ پالیسی کے تحت سالانہ ایک لاکھ 25 ہزار پناہ گزینوں کو داخلے کی اجازت حاصل ہوتی ہے لیکن نئی حد اس کے برخلاف شدید کمی کی نشاندہی کرتی ہے ۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ ریاستی مفادات اور قومی سلامتی کو اولین ترجیح دی جائے گی ، اس لیے امیگریشن کے رجحان کو کم کرنا ناگزیر ہے ۔ ان کے مطابق ملک میں داخل ہونے والے تارکین وطن کی تعداد میں کمی سے ریاستی وسائل پر دباؤ بھی کم ہوگا ۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اعلان کیا کہ جنوبی افریقہ کے سفید فام شہریوں کو ترجیحی بنیادوں پر پناہ دی جائے گی کیونکہ ان کے دعویٰ کے مطابق یہ افراد نسلی خطرات سے دوچار ہیں ۔
مزید یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ انتظامیہ کا بڑا اقدام،وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کا داخلہ بند
نئی پالیسی کے تحت مہاجرین کو سخت ترین سیکورٹی جانچ کے مراحل سے گزرنا ہوگا اور داخلے کی حتمی منظوری کے لیے امریکی وزارت خارجہ اور ہوم لینڈ سکیورٹی کے فیصلوں کو لازمی قرار دیا گیا ہے ۔
اس سے قبل حکومت نے جون میں غیر ملکیوں کے داخلے سے متعلق ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر بھی جاری کیا تھا جس نے پہلے ہی امیگریشن کے ضابطوں میں سختی پیدا کر دی تھی ۔
ان اقدامات کے بعد انسانی حقوق کی عالمی اور مقامی تنظیموں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان تنظیموں کے مطابق نئی پالیسی انسانی ہمدردی کے اصولوں کے منافی ہے اور بین الاقوامی پناہ گزین معاہدوں پر منفی اثر ڈال سکتی ہے ۔
ماہرین کے خیال میں یہ فیصلہ امریکی امیگریشن نظام کو مزید محدود اور متنازع بنا دے گا، جس کے باعث عالمی سطح پر امریکا کے کردار پر بھی سوالات کھڑے ہو سکتے ہیں ۔




