پی ٹی سی ایل–ٹیلی نار ڈیل آخری مرحلے میں،ڈیٹا لیک سے متعلق تشویشناک انکشافات

اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن کو جمعرات کے روز بتایا گیا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ (پی ٹی سی ایل) اور ٹیلی نار پاکستان کا مجوزہ انضمام آئندہ دو ہفتوں میں مکمل ہونے کی توقع ہے۔

کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) کے چیئرمین ڈاکٹر کبیر احمد صدیقی نے کمیٹی کو بتایا کہ اس کیس کا جائزہ 18 ماہ سے جاری تھا کیونکہ معاملہ پیچیدہ نوعیت کا تھا، جبکہ پی ٹی سی ایل مینجمنٹ کی تاخیر سے جوابات بھی رکاوٹ بنے۔

کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر پلوشہ خان نے پی ٹی سی ایل اور اس کی ذیلی کمپنی یوفون کے بورڈز میں تقرریوں پر سوال اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی سی ایل بورڈ کی تفصیلات ویب سائٹ پر موجود ہیں لیکن یوفون کے بورڈ ممبران کی معلومات نہ تو ویب سائٹ پر دستیاب ہیں اور نہ ہی پہلے اجلاسوں میں فراہم کی گئی ہیں۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بورڈ ممبران کو ملنے والے مراعات پر وضاحت طلب کی، جن میں پانچ ہزار ڈالر الاؤنس اور بیرونِ ملک دوروں کی رپورٹس شامل ہیں۔ اس پر سینیٹر پلوشہ خان نے کہا کہ ’’یہ عوامی معلومات ہیں اور ان کا افشا ہونا ضروری ہے‘‘۔

ڈیٹا چوری کے انکشافات:

سینیٹر عرفان اللہ نے انکشاف کیا کہ 65 ارب روپے سے زائد مالیت کا چوری شدہ ڈیٹا ڈارک ویب پر فروخت ہورہا ہے، جس میں تقریباً 3 لاکھ حج درخواست گزاروں کی ذاتی معلومات بھی شامل ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ ڈیٹا پروٹیکشن قانون سازی نہ کی جائےاور فوری اقدامات پر زور دیا۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے چیئرمین نے تصدیق کی کہ سم ڈیٹا، جس میں ان کا اپنا بھی شامل ہے، 2022 سے ڈارک ویب پر گردش کر رہا ہے۔ انہوں نے بلوچستان میں ناقص سروس اور ملک بھر میں کال ڈراپ کے مسائل کو بھی تسلیم کیا۔ کمیٹی ارکان نے آئی ٹی وزیر شزا فاطمہ کی بار بار غیر حاضری پر سخت تنقید کی اور وزارت کی سنجیدگی پر سوال اٹھایا۔

یہ بھی پڑھیں: مون سون کا باضابطہ اختتام، ملک بھر میں گرم اور خشک موسم کی پیش گوئی

سینیٹر ندیم بھٹو نے کراچی–سکھر موٹر وے سمیت کئی علاقوں میں موبائل سروس کی عدم دستیابی کو اجاگر کیا۔ پی ٹی اے حکام نے آگاہ کیا کہ دسمبر میں 5جی نیلامی کے انتظامات مکمل ہیں، تاہم عدالتی مقدمات کے باعث تاخیر ہوسکتی ہے۔ کمیٹی نے وزارت کو ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل کے دفتر کے ساتھ مل کر قانونی رکاوٹیں جلد دور کی جائیں۔

Scroll to Top