مظفرآباد کی بہادر لڑکی کنزا احمد نوجوان لڑکیوں کیلئے بہترین مثال بن گئی

مظفرآباد(انٹرویو: نوشین خواجہ ) ایک باہمت لڑکی کنزا احمد جس نے معاشرتی دباو کے باوجود معاشی طور پر اپنے پاوں پر کھڑا ہونے کی ٹھانی تو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کنزا احمد  نے مظفرآباد جیسے شہر میں پہلی بار  کیفے کھول کر تاریخ رقم کی، انہیں کیسے حالات کا سامنا کرناپڑا اور کتنا معاشرتی دباو برداشت کرنا پڑا ؟۔کشمیر ڈیجیٹل کیساتھ خصوصی انٹرویو میں  کنزا احمد کا کہنا تھا کہ  انہوں نے تین سال اسلام آباد میں جاب کی اور پھر ٹھان لی کہ وہ خواتین کی معاشی خود انحصاری کی جانب پہلا قدم ثابت ہوگی ۔ اور ان تین سال میں محسوس کیا کہ لڑکیوں کو معاشی طور پر آذاد ہونا چاہیے۔ کنزا کا کہنا تھا کہ جب مظفرآباد شہر میں کیفے شروع کیا تو انرجی لیول اس قدر سٹرانگ ہوچکا تھا کہ لوگوں کی باتیں بے اثر لگتی تھیں ۔

ایسی صورتحال میں جب آپ کا انرجی لیول سٹرانگ ہو تو لوگوں کی باتیں ویسے بھی محسوس نہیں ہوتیں ۔ تاہم فیملی کی جانب سے جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے چونکہ اس کا ہم جواب نہیں دے سکتے تو وہ ہمارے اندر ہی رہ جاتی ہیں  اس کا اظہار نہ کرنے کی وجہ سے وہ چیزیں جو دل کے اندر رہ جاتی ہیں وہ زیادہ ڈسٹرب کرتی ہیں تاہم کچھ لوگوں نے سپورٹ بھی کیا سارے لوگ ایک جیسےنہیں ہوتے ۔ مظفرآباد میں اس سے قبل ایسانہیں ہوا کہ کوئی لڑکی اس طرح کاروبار میں اپنا لوہا منوائے ، یہاں لڑکیاں ٹیچنگ تک محدود ہیں لیکن ٹیچنگ سے   معاشی مسائل نہیں ہوسکتے تھے جس کو جتنی انکم کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسی سوچ کے مطابق آگے بڑھتا ہے

کیفے کی تعمیر کے وقت بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، ایک عام سی دکان کو اپنے ذہن کے مطابق کیفے میں ڈھالنا میرے لئے ایک چیلنج تھا ۔ کیفے کی تعمیر کے دوران کام کرنیوالے لوگوں کی غیر سنجیدگی کا بھی سامنا کرنا پڑا ، جو کام ایک دن میں ختم ہونا ہوتا اسے تین دن لگادیتے ، رات کے تین تین بجے تک کھڑے رہ کر کام کروانا اور سخت گرمیوں میں ایک لڑکی کیلئے کافی مشکل تھا ، کیفے کی تعمیر میں میری ایک دوست جو دبئی میں تھی اس کا اہم کردار رہا ۔ ہم نے پہلے گارمنٹس کے کاروبار کا سوچا مگر اس کیلئے ہمارے پاس اتنا سرمایہ نہیں تھا لیکن اچانک ہمارے ذہن میں  کیفے کا آیڈیا آیا تو میں نے اور میری دوست نے اس پر کام شروع کردیا اس میں سرمایہ بھی کم لگا اور کام بھی ہماری سوچ کے مطابق ہوگیا ۔

ایک سوال کے جواب میں کنزا احمد کا کہنا تھا کہ زندگی کے نشیب وفراز کا اب بھی سامنا ہے ۔ معاشرتی دباو تھا یا کچھ اور میں بہت سارے ذہنی مسائل کا شکار بھی ہوچکی تھی ، انگزائٹی اور ڈپریشن میں گر چکی تھی یہاں تک کہ کیفے میں کسٹمرز کی موجودگی میں رونا شروع ہوگئی کہ اب مرنے والی ہوں ، پھر گھروالوں سے رابطہ کیا اور اپنے آپ کو سنبھالا دیا ، والد اور والدہ پہلی بار مجھے ڈاکٹر کے پاس لے کر پہنچ گئے ۔ سائیکالوجسٹ ڈاکٹر نے مجھے چیک کیا اور کچھ ادویات تجویز کی ، ،خودکشی اور مرنے کے احساس کے درمیان زندگی کی رمق اور پھر میری یہ سوچ کہ میں نے اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے گھروالوں کیلئے زندہ رہنا ہے تو پھر آہستہ آہستہ آج میں اپنے آپ کو بہتر محسوس کررہی ہوں میری کامیابی یہ نہیں کہ میں نے کیفے کو رن کرلیا میری کامیابی یہی ہے کہ میں سخت دباو کے باوجود زندہ اپنے گھروالوں کیلئے کام کررہی ہوں

مزید ویڈیو میں ملاحظہ کریں: 

Scroll to Top