آزادکشمیر کو “عذاب” کہنے والوں کو شرم آنی چاہیے، راجہ محمد فاروق حیدر خان

(کشمیر ڈیجیٹل)سابق وزیراعظم آزادکشمیر راجہ محمد فاروق حیدر خان نے کہا ہے کہ آزاد خطہ کے اندر افراتفری پیدا کردی گئی ہے جس کا مطلب اس خطے کو بے آئین کیا جانا مطلوب ہے، وزیراعظم آرام کر کے بیٹھیں، ہر معاملے میں ٹانگ نہ اڑایا کریں۔ پاکستان سے تعلق نظریہ کی بنیاد پر ہے، کسی مفاد یا لالچ کے لیے نہیں، نا ہی کسی کی ایجنٹی کی ہے۔ حکومتوں، اداروں سے اختلاف ڈنکے کی چوٹ پر کیا ہے، کریں گے۔ موجودہ سیٹ لائے جانے پر تحفظات ہیں لیکن پاکستان کے مفاد کے خلاف کوئی بات یا اقدام کرے گا تو اس کے رستے کی دیوار بنیں گے، اس کا بھرپور مقابلہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ آزادکشمیر میں مودی کا ایجنڈا نہیں چل سکتا۔ سیاسی جماعتیں مصلحت کے تحت خاموش ہیں، لیڈران بات نہیں کرتے کھل کر اس ڈر سے کہ کوئی گالی نکالے گا۔ کیا ایسے سیاست چلے گی؟ نظریاتی تخریب کاری کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ کوئی اگر گالی دے گا یا جس زبان میں بات کرے گا، اسے جواب بھی اسی زبان میں ملے گا۔ اس کا کسی اور کو اختیار نہیں دیا جا سکتا۔

آزادکشمیر اس وقت تین حصوں میں تقسیم ہے۔ مہاجرین جموں کشمیر ریاست کا حصہ ہیں، مہاجرین نشستیں آئین کا حصہ ہیں، ان کے اوپر منتخب ہونے والوں نے اگر ذمہ داریاں ادا نہیں کیں تو ان کو باہر پھینکیں۔ جو کہتا ہے ممبران اسمبلی کی ٹانگیں توڑیں گے، زبانیں باہر نکالیں گے اور بےغیرت کہتا ہے، اس کے خلاف کیا حکومت نے کوئی کارروائی کی؟ لوگوں کو ریاست کے خلاف کام کرنے کی کھلی چھوٹ نہیں دی جا سکتی۔ مذاق بن گیا ہے، جس کا دل چاہے دھمکی لگا دے، غیر سنجیدہ مطالبات کو نہیں مانا جا سکتا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے قانون ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ سازش کی بو محسوس ہو رہی ہے، اس خطے کو آئین سے محروم کرنے کی صورت میں ہمارے پاس کچھ نہیں بچے گا، اس سازش کی کامیابی سے مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ جب تک زندہ ہوں، اسمبلی کی طرف کوئی نہیں آ سکتا۔

صدر ن لیگ اور پیپلزپارٹی اس معاملے پر اپنا واضح پارٹی موقف دیں، اس میں مصلحت کیسی ہے؟ ہندوستان کے آرمی چیف کو ان کا ہندو پنڈت کہتا ہے کہ میں تم کو وہ منتر دیتا ہوں جو کرشن نے دیا تھا، تم اس منتر پر آزادکشمیر لے کر دو۔ آزادکشمیر کی سیاسی جماعتیں خاموش بیٹھی ہیں، حکومت بھی کچھ نہیں کر رہی۔

سابق وزیراعظم نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن والے بات کرنے سے ڈرتے ہیں کہ آگے سے کوئی گالی نکالے گا۔ کوئی بات کرے یا نہ کرے، میں ہر صورت بات کروں گا اور ڈنکے کی چوٹ پر اس سازش کا مقابلہ کریں گے۔ ہمارا کوئی بیانیہ ہی نہیں ہے، آپ الیکشن میں کس منشور کے تحت جائیں گے؟ یا ان کے حوالے کرکے جائیں گے؟ سوا دو لاکھ کشمیریوں نے شہادتیں پیش کیں، آزادکشمیر کو “عذاب کشمیر” کہنے والوں کو شرم آنی چاہیے۔

لوگ کہتے ہیں کہ فلاں وزیر کی ٹانگیں کاٹ دو، زبان کاٹ دو۔ وزیر داخلہ نے اس پر کیا ایکشن لیا؟ اسمبلی اراکین کے بارے میں کہتے ہیں کہ 53 بےغیرت ہیں، جن کو شرم نہیں آتی۔

راجہ فاروق حیدر خان کا مزید کہنا تھا کہ میں کسی کا ایجنٹ نہیں بلکہ اس دھرتی کا فرزند ہوں، اسی لیے سینہ تان کر کہتا ہوں پاکستان سے تعلق پر فخر ہے، کسی لالچ میں نہیں۔ بلکہ ہمارے تحفظات ضرور رہے ہیں اور موجودہ سیٹ اپ کے حوالے سے بھی ہیں، اداروں سے متعلق بھی تحفظات ہیں، ریاست سے کوئی شکوہ نہیں۔ پاکستان ہمارا ملک ہے، جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے، یہ تماشا اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا۔ حریت کانفرنس ہمارے جسم کا حصہ ہے، ہم دل و جان سے ایک ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزراء سے کہتا ہوں، پارٹی کی لائن پر چلیں گے یا حکومت کی؟ فیصلہ کر لیں۔ حکومت چاہیے یا جماعت؟ مجھے کسی سے ذاتی اختلاف نہیں، اس طرز حکمرانی اور انداز حکومت سے اختلاف ہے۔ کوئی کشمیری پاکستان سے باہر نہیں، نا اس طرف نا اس طرف۔

5 اگست کے بعد مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ بھاگ گیا تھا۔ بتاؤ کہ پاکستان کا وفد باہر کیوں گیا تھا؟ وہاں لوگوں سے بات کرنی ہے۔ موبائل فون بند کریں، یہ بندر کے ہاتھ میں استرا آ گیا ہے۔ آگے بڑھنے اور کشمیر کے حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کے لیے اسپیکر کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی جائے جو حریت کانفرنس آزادکشمیر کی لیڈرشپ سے مل کر لائحہ عمل طے کرے۔

5 اگست کے اقدام کے حوالے سے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان کو اس کا علم تھا۔ 10 مئی کو پاکستان نے ہندوستان کو منہ توڑ جواب دیا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قیادت میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ ائیر فورس دنیا کی بہترین ائیر فورسز میں سے ایک ہے، آپریشن کے دوران ائیر چیف فرش پر سوئے۔

راجہ فاروق حیدر خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے جس بہترین انداز سے عالمی سطح پر پاکستان کا مقدمہ پیش کیا، وہ لائق تحسین ہے، مگر عقل کل کوئی نہیں، ہم سب مل کر بات کریں گے۔ حکومت پاکستان ہماری بات سنے گی۔

ہم کشمیر کے معاملے پر ہندوستان کی آئینی پوزیشن کو مانتے ہی نہیں، نہ ہندوستان کا آئین، نہ اس کی اسمبلی، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر حاوی ہو سکتی ہے۔ کشمیر کی تقسیم ہندوستان نہیں کر سکتا۔ اگر کچھ ہوتا بھی ہے تو وہ فیصلہ کشمیریوں نے کرنا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے اندر جو حالات ہیں، جن کو یہ نہیں پتہ کہ 19 جولائی کو پاکستان کے قیام سے پہلے قرارداد الحاق کس لیے منظور ہوئی۔ آزادکشمیر کے اندر جو نظام قائم ہے، یہ قربانیوں، محنت اور جدوجہد کے بعد ملا۔

یہ بھی پڑھیں: جان سے پیارا پاکستان‘، یومِ آزادی کے موقع پر آئی ایس پی آر کا ملی نغمہ جاری

تحریک آزادی کشمیر سے بے وفائی ہمارے خون میں نہیں، جب تک زندہ ہوں، یہ حق بات کرتا رہوں گا۔ شخصیات اور افراد سے ہمارے شکوے، گلے اور تلخیاں بھی ہوئیں، ہوتی بھی رہیں گی، لیکن پاکستان کی ریاست، مسلح افواج پاکستان اور پاکستانی عوام سے کوئی گلہ نہیں۔

Scroll to Top