دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کو سکیورٹی کے بجائے اقتصادی بارڈر میں بدلا جانا چاہیے، حسن نوریان

(کشمیر ڈیجیٹل)ایرانی وزارت خارجہ کے سینیئر اہلکار حسن نوریان نے کہا ہے کہ ایرانی اور پاکستانی حکام اس بات کو سمجھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان 900 کلومیٹر طویل سرحد کو سکیورٹی بارڈر سے اقتصادی بارڈر میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے یہ بات ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کے حالیہ دورہ پاکستان کے تناظر میں کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا جانتی ہے کہ ایران وہ پہلا ملک ہے جس نے 1947 میں پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا اور کراچی جو کہ اس وقت دارالحکومت تھا وہاں اپنا سفارتخانہ کھولا تھا۔ اسی طرح سرکاری طور پر پاکستان نے 1979 میں سب سے پہلے انقلاب ایران کی فتح کو تسلیم کیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نہ صرف اچھا پڑوسی ہے بلکہ ایک اچھا رشتہ دار بھی ہے اور ایرانی قوم اس اہم پڑوسی کی شکرگزار ہے۔ ان کے مطابق دونوں ملکوں کے عوام ثقافت، زبان، تاریخ اور مذہبی رشتوں سے جڑے ہوئے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ کڑے وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔

کراچی میں قونصل جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے حسن نوریان نے کہا کہ ایک جیسی ثقافت اس نوعیت کی ہے کہ ان دونوں ملکوں کے شہری ایک دوسرے کے ملک جائیں تو انہیں اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ تہران میں شاہراہ محمد علی جناح اور پاکستان اسٹریٹ موجود ہے، جبکہ پاکستان کے بڑے شہروں بشمول کراچی میں ایران ایونیو اور ایرانی شاعروں فردوسی، سعدی، حافظ، خیام اور دیگر کے ناموں سے سڑکیں موسوم ہیں۔

انہوں نے صدر پزشکیان کے دورہ پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد نے جس طرح 2 اور 3 اگست کو صدر ایران صدر مسعود پزشکیان اور ان کے وفد کا خیر مقدم کیا وہ قابل ذکر ہے۔ یہ صدرارتی الیکشن جیتنے کے بعد مسعود پزشکیان کا پہلا دورہ پاکستان تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر پزشکیان نے لاہور سے اپنے دورے کا آغاز کیا جہاں سابق وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ان کا استقبال کیا۔ انہوں نے مزار اقبال پر حاضری دی۔ نوریان کے مطابق “کہا جاتا ہے کہ علامہ اقبال کے 8 ہزار سے زائد شعروں جو کہ ان کے مجموعی کلام کا 70 فیصد ہیں، وہ فارسی میں ہیں۔”

اسلام آباد میں صدر، وزیراعظم، وزیر خارجہ، فوجی قیادت، سینیٹ و قومی اسمبلی کے اسپیکرز اور بزنس کمیونٹی سے ملاقاتوں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “یہ دورہ ایران کی پڑوسیوں کو اولیت دینے کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کا مظہر تھا۔”

انہوں نے کہا کہ پاک ایران تجارت کا موجودہ حجم 3 ارب ڈالر ہے۔ حالیہ دورے میں تعاون کے 12 معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ یہ معاہدے مواصلات، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، سیاحت اور آزاد تجارت سے متعلق ہیں۔ ان پر عمل کیا گیا تو یہ دوطرفہ تعلقات اور تجارت کو کئی گنا بڑھا سکتے ہیں۔

نوریان نے صدر رئیسی کے اپریل 2024 کے دورہ پاکستان کا بھی ذکر کیا اور یاد دلایا کہ ان کی شہادت کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اور دیگر حکام نے تہران جاکر خراج عقیدت پیش کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر پزشکیان کا حالیہ دورہ وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت پر جوابی تھا۔ نوریان کے مطابق “پچھلے ایک عشرے کے دوران ایران اور پاکستان کے تعلقات میں نسبتاً استحکام آیا ہے، ایک دوسرے ممالک کے دورے بڑھے ہیں اور حکام کے درمیان تبادلے معمول بن گئے ہیں۔”

انہوں نے زور دیا کہ صدر ایران کے دورہ پاکستان کی خاص اہمیت یہ ہے کہ یہ دورہ جنوب اور مغربی ایشیا کی منفرد سیاسی صورتحال اور پیشرفت کے موقع پر کیا گیا ہے۔

نوریان نے بتایا کہ مئی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان چار روزہ جنگ ہوئی، جس نے پورے خطے پر اثر ڈالا۔ اس موقع پر “اسلام آباد نے تہران کی جانب سے پاکستان اوربھارت کے درمیان ثالثی کی پیش کش اور کشیدگی کم کرنے کے لیے ایرانی وزیرخارجہ ڈاکٹر عراقچی کے دورہ پاکستان اور بھارت کو سراہا ہے۔”

غزہ میں جاری جنگ اور اسرائیل کی 12 روزہ جنگ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “اس لڑائی نے خطے اور اسلامی دنیا کی جیوپالیٹیکس کو تبدیل کردیا ہے۔ مسلم دنیا میں سب سے بڑے اور اہم ترین ممالک میں سے ایک پاکستان کی پوزیشن اس جنگ میں بہت اہم تھی۔ ایرانی عوام اور حکام نے پاکستان کے اس جرات مندانہ اور بہادرمؤقف کو ہمیشہ سراہا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے مشترکہ مؤقف کی بنیاد وہ اصولی پالیسی ہے جو فلسطین کے معاملے پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور آیت اللہ خمینی نے ترتیب دی اور آج بھی جاری ہے۔

انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “اس وقت اسرائیل اور امریکا کی جانب سے مشترکہ اور غیر قانونی طور پر ایران کی جوہری تنصیبات کے خلاف اقدامات اور ایسی صورتحال دوسری جگہوں پر دہرائے جانے کے خدشات پر شدید تشویش پائی جاتی ہے۔”

نوریان نے پاکستان کے اقوام متحدہ میں مؤقف کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایران پر اسرائیلی حملے کی پاکستان کے مستقل مندوب کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بحیثیت صدر مذمت کو تہران میں بہت مثبت انداز سے دیکھا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہپاکستان کی جانب سے ڈائیلاگ اور مذاکرات کی حمایت اور ایران کو نیوکلئیر نالج کا حق رکھنے سے متعلق حمایت صدر پزشکیان اور وزیراعظم شہبازشریف کی پریس کانفرنس میں بھی جھلکی۔

انہوں نے دونوں ممالک کے تعاون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ “ایران اور پاکستان نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے تعاون بہتر بنانے کی خاطر مشترکا میکانزم بنائے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے بے انتہا مواقع ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ سیاسی اُمنگوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان سے لاکھوں زائرین کی مذہبی سیاحت کیلئے ایران آمد بھی انہی مواقعوں میں سے ایک ہے۔”

انہوں نے زور دیا کہ اس وقت صرف 2 زمینی سرحدی گزرگاہیں رمدان اور میرجاوہ فعال ہیں جہاں سے سیاحوں اور تاجروں کو سہولت دی جارہی ہے۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ ایک دوسرے ممالک کی ضرورت کو پورا کیا جائے۔

اور آخر میں انہوں نے دہرایا کہ “ایرانی اور پاکستانی حکام اس بات کو سمجھتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان 900 کلومیٹر طویل سرحد کو سکیورٹی بارڈر سے اقتصادی بارڈر میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔”

نوریان نے تجارتی امکانات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ “دیگر ممالک سے ایران جو کچھ درآمد کرتا ہے وہ پاکستان میں باآسانی موجود ہے جبکہ پاکستان بہت سے ایسی چیزوں کو برآمد کرتا ہے جو ایران دیگر ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ اس کے برعکس صورتحال بھی ایسی ہی ہے۔”

یہ بھی پڑھیں: پیرس میں ایفل ٹاور کے سامنے یومِ استحصال کشمیر پر احتجاجی مظاہرہ

آخر میں انہوں نے زور دیا کہ “ایران پاکستان چیمبر آف کامرس کو صوبائی سطح سے بڑھا کر قومی سطح پر لایا جانا چاہیے تاکہ یہ اقتصادی تعلقات کی مضبوطی میں زیادہ اہم کردار ادا کرسکے۔”

Scroll to Top