سری نگر/اسلام آباد: مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعلی عمر عبداللہ اور ان کے وزراء یوم شہداء پرگھر میں قید رہے دوسرے دن بھی انکوا شہداء کی قبروں پر حاضری کی اجازت نہ ملی مگر وہ دھکم پیل کے بعد دیوار پھلانگ کر قبرستان پہنچے اور فاتحہ خوانی کی۔
تفصیلات کے مطابق بھارت کی طرف سے سیکولرہونے کے دعوے کئے جاتے ہیں تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ اور وزراء کو ہی آزادانہ نقل وحرکت کی اجازت ہے نہیں ہےاور نہ ہی وہ اپنی مرضی سے کچھ کرسکتے ہیں۔
13جولائی کا یوم شہداء جو 1931 کے شہداء کی یاد میں منایا جاتا ہے مقبوضہ وادی کے عوام کو اس روز کو بھی منانے کی اجات نہیں ہے ، عیدین ہوں یا کوئی بھی تہوار اس پر بھی کشمیریوں کو پابندیوں کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔
کٹھ پتلی وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ سرینگر میں مزار شہدا کا گیٹ پھلانگتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ اور پولیس نام نہاد بھارتی گورنر کے ماتحت ہے۔ پولیس نے منتخب حکومت کے وزرا اور ایم ایلز کو13 جولائی 1931 کے شہدا کی قبروں پر خراج عقیدت پیش کرنے سے روک دیا تھا۔
اس سلسلے میں انہیں گھروں میں بند رکھنے کے ساتھ ساتھ تمام راستے بھی بند کر دئیے گئے تھے۔
پیر کومقبوضہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اپنے وزرا کیساتھ نوہٹہ میں شہدا کے قبرستان پہنچے جہاں انہیں روکنے کی کوشش کی گئی تاہم عبداللہ دیوار پھلانگ کر قبرستان میں داخل ہوئے۔
اس حوالے سے انہوں نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ13 جولائی 1931 کے شہداء کی قبروں پر خراج عقیدت پیش کی اور فاتحہ پڑھی جبکہ غیر منتخب حکومت نے میرا راستہ روکنے کی کوشش کی ۔
انہوں نے کہا کہ نقشبند صاحب کی درگاہ کا دروازہ بند کر دیاگیا اور مجھے دیوار سے چھلانگ پھلانگنے پر مجبور کیالیکن آج بھی مجھے جانے سے روکنے کی کوشش کی گئی لیکن میں رکنے والا نہیں تھا۔
بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمرعبداللہ نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ امن و امان برقرار رکھنے کے ذمہ داروں کے حکم پر ہمیں کل فاتحہ پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی، سب کو صبح سے ہی گھروں میں نظر بند کر دیا گیاتھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب میں نے کنٹرول روم کو بتایا کہ میں یہاں فاتحہ پڑھنے آنا چاہتا ہوں تو چند منٹوں میں میرے گھر کے باہر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں اور رات 12 بجے تک بغیر کسی کو بتائے میں وہیں رہا، میں جاننا چاہتا ہوں کہ مجھے کس قانون کے تحت روکا گیا۔؟
عمرعبداللہ نے بھڑک مارتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے غلام ہیں، ہم کسی کے غلام نہیں ہیں، ہم صرف یہاں کے لوگوں کے غلام ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے ہمارا جھنڈا پھاڑنے کی کوشش کی لیکن ہم نے یہاں آکر فاتحہ پڑھی۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ قبریں ہمیشہ یہیں رہیں گی۔ انہوں نے 13 جولائی کو ہمیں روکا لیکن یہ کب تک کرتے رہیں گے۔
ہم جب چاہیں گے یہاں آئیں گے اور شہیدوں کو یاد کریں گے۔
یاد رہے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی انتظامیہ نے 13 جولائی شہیدوں کی برسی کے موقع پر لیڈروں کو کسی بھی پروگرام کے انعقاد سے روک دیا تھا۔
یہ بھی یاد رہے کہ 13 جولائی کو جموں و کشمیر میں ‘یوم شہدا’ کے طور پر منایا جاتا ہےجسے گورنر کی قیادت میں انتظامیہ نے 2020 میں گزیٹڈ تعطیلات کی فہرست سے بھی ہٹا دیاتھا۔
عمر عبداللہ نے ایکس پر لکھاکہ کتنی شرم کی بات ہے کہ برطانوی راج کیخلاف لڑنے والے حقیقی ہیروز کو آج ولن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
مودی سرکار کی مسلم دشمنی کا اس بات سے ہی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈوگرہ راج کیخلاف احتجاج کے دوران اذان کی تکمیل کرتے ہوئے 22 مسلمانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیاتھا اورمسلمانوں کو انہیں بھی خراج عقیدت پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
دوسری طرف آزادکشمیر اور پاکستان میں یوم شہدابھرپورانداز میں منایا گیا، صدر، وزیراعظم پاکستان سمیت سیاسی و عسکری قیادت نے شہداء کا شاندار الفاط میں خراج عقیدت پیش کیا۔