نیویارک:دنیا بھر میں 7 کروڑ 35 لاکھ افراد اپنی جان بچانے کی خاطر اپنے علاقوں سے نقل مکانی کر کے دوسری جگہوں پر مقیم ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ایسے افراد میں سے 4 کروڑ 27 نے بیرون ملک پناہ لی ہوئی ہے جن کی 73 فیصد تعداد کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں رہ رہی ہے۔
2024کے آخر تک نقل مکانی کرنے والوں کی مجموعی تعداد 12 کروڑ 34 لاکھ تھی جن میں بیشتر نے سوڈان، میانمار اور یوکرین میں طویل عرصے سے جاری جنگوں کے باعث اپنا ملک چھوڑا۔ ایسے لوگوں کی 67 فیصد تعداد نے ہمسایہ ممالک میں پناہ لی ہے۔
پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے کہا ہے کہ شام میں 13 سال سے زیادہ عرصہ تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران ایک کروڑ 35 لاکھ لوگ اندرون ملک بے گھر ہوئے یا بیرون ملک پناہ لی۔ یہ دنیا میں نقل مکانی کا سب سے بڑا بحران تھا۔
اب سوڈان کے بحران نے شام کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جہاں 2 سال سے جاری خانہ جنگی میں ایک کروڑ 43 لاکھ افراد نے نقل مکانی کی ہے جو کہ ملک کی مجموعی آبادی کا ایک تہائی ہے۔ ان میں ایک کروڑ 16 لاکھ لوگ اندرون ملک بے گھر ہیں۔
ادارے کے ہائی کمشنر فلیپو گرینڈی کا کہنا ہے کہ دور حاضر میں بین الاقوامی تعلقات میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے لڑی جانے والی جنگوں نے انسانی تکالیف میں بڑے پیمانے پر اضافہ کر دیا ہے۔
یو این ایچ سی آر کی جاری کردہ نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ بہت سے خطوں کو نقل مکانی کے بحران درپیش ہیں اور امدادی وسائل کی قلت نے ایسے مسائل کو کہیں زیادہ گمبھیر بنا دیا ہے لیکن اس کے باوجود امید کی کرن بھی دکھائی دیتی ہے۔
رواں سال شام سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں سمیت 188800 افراد اپنے میزبان ممالک میں مستقل طور پر آباد ہوئے جو گزشتہ 4 دہائیوں میں سب سے بڑی تعداد ہے۔
علاوہ ازیں گزشتہ سال 98 لاکھ پناہ گزین اپنے ممالک اور گھروں کو واپس آئے جن میں 16 لاکھ پناہ گزین اور اندرون ملک بے گھر ہونے والے 82 لاکھ لوگ بھی شامل تھے۔ ان کی بیشتر تعداد نے افغانستان اور شام میں واپسی اختیار کی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پناہ گزینوں کی واپسی رضاکارانہ، باوقار اور محفوظ ہونی چاہیے۔اس مقصد کے لیے قیام امن کی طویل مدتی کوششوں اور وسیع پیمانے پر پائیدار ترقی کی ضرورت ہے۔