مظفرآباد : کشمیر انویسٹی گیشن ٹیم کے معروف تجزیہ نگار ذوالفقار علی نے اپنے تازہ ترین طنزیہ کالم میں “آزاد کشمیر ایکسپو 2025” کے نام سے ایک ایسی فرضی نمائش کا خاکہ پیش کیا ہے جو حقیقت کا آئینہ دار بن کر آزاد کشمیر کے سیاسی و انتظامی نظام کی پرتیں کھولتی ہے۔ یہ ایکسپو دراصل ان “کامیابیوں” کا جشن ہے جن کا بوجھ پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام مسلسل اٹھا رہے ہیں۔ ہر پویلین ایک الگ داستان سناتا ہے، لیکن ہر کہانی کا مرکزی موضوع وہی ہے ، آئین سے کھلواڑ، اختیارات کا ناجائز استعمال، مراعات کی بھرمار، احتساب کا فقدان اور عوامی مسائل سے لاپرواہی۔
ایکسپو کا آغاز “جمہوریت کے طلسم ہاؤس” سے ہوتا ہے جہاں فلور کراسنگ کے ذریعے حکومتیں تبدیل کی جاتی ہیں۔ ایک اسپیکر، جو اسمبلی کی گھنٹی بجا رہا ہوتا ہے، اچانک وزیراعظم منتخب ہو جاتا ہے، اور پھر وزیراعظم بننے کے باوجود اسپیکر کے فرائض بھی انجام دیتا ہے۔ اس تماشے میں آئین اور اصول پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور اراکین اسمبلی مفاد میں متحد ہو کر تاریخی اتفاق رائے پیدا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ 53 کے ایوان میں صرف 19 ووٹ لے کر اسپیکر منتخب ہو جاتا ہے اور حزب اختلاف کا رہنما بھی اسپیکر بن کر دونوں عہدے کچھ عرصے اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔
اگلے مرحلے میں ایک ایسی اسمبلی دکھائی گئی ہے جو عوامی نہیں بلکہ اشرافیہ کے لیے مخصوص ہے۔ جہاں صرف مراعات، تنخواہوں، گاڑیوں اور پٹرول کے کوٹے کی سیاست چلتی ہے۔ ایک شیشے کے ہال میں سابق وزرائے اعظم، صدور اور اراکین اسمبلی کی مراعات کی لائیو نمائش کی جاتی ہے۔ سابق صدور کو مہنگی گاڑیاں، سیکیورٹی، گھر کا کرایہ اور پنشن دی جاتی ہے جبکہ سابق وزرائے اعظم کو 3000 سی سی گاڑیاں، ہزاروں لیٹر پٹرول اور عملہ مہیا کیا جاتا ہے۔ 2017 سے 2023 کے درمیان چھ بار تنخواہیں اور مراعات میں اضافہ ہو چکا ہے۔
اس نمائش میں ایک حصہ آئینی ترامیم کے اس کمال کو بھی ظاہر کرتا ہے جس کے ذریعے حکومت کو بچانے کے لیے آئین کو بار بار بدلا گیا۔ وزرا کی تعداد پہلے آئین میں 16 مقرر کی گئی، مگر بعد میں خود انہی اراکین نے ترمیم کرکے وزرا کی تعداد بڑھا دی، یوں آج 53 کے ایوان میں 31 وزرا، دو مشیر، دو معاونین اور دیگر عہدے دار شامل ہیں۔ یہاں آئین محض ایک کاغذی ٹکڑا دکھائی دیتا ہے اور وعدے صرف تقریروں کی زینت بنے رہتے ہیں۔
پھر ایک اور پویلین میں قانون سازی کو زبان بندی کا ہنر بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ یہاں ایک مجسمہ نصب ہے جس میں آئین کو تولیے کی طرح مروڑا جا رہا ہے اور نیچے لکھا ہے: “جو 1860 میں لارڈ کیننگ نہ کر سکا، وہ ہم نے 2024 میں کر دکھایا”۔ یہاں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح سیکشن 505 میں ترمیم کر کے تنقید کو جرم قرار دیا گیا، اور اب اگر کوئی صدر، وزیراعظم یا وزیر پر تنقید کرے تو اسے سات سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
نمائش کا سب سے پرتعیش حصہ “شاہی زون” ہے جہاں لینڈ کروزر، مرسڈیز، پراڈو، فارچونر اور ہونڈا سیوک جیسی مہنگی گاڑیاں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ ہر گاڑی پر سنہری الفاظ میں لکھا ہے: “فلاحی ریاست کی سواری”، اور پس منظر میں ایک شخص ننگے پاؤں دوا کی پرچی تھامے، ہسپتال کے دروازے پر کھڑا نظر آتا ہے — عوامی خدمت اور اشرافیہ کے فرق کی عکاسی کرتا ہوا۔
“احتساب بیورو” کے پویلین میں داخل ہوں تو ایک بورڈ نظر آتا ہے جس پر لکھا ہے: “سیاسی و انتظامی اشرافیہ کا احتساب ممنوع ہے”۔ سالانہ 15 کروڑ کا بجٹ ہے، مگر نہ چیئرمین ہے نہ اختیارات، نہ ہی کوئی نتیجہ۔
ایک اور دلچسپ منظر “سیاسی وفاداری کے میوزیکل چیئر” میں نظر آتا ہے، جہاں نرم گدے دار کرسیاں رکھی گئی ہیں۔ ہر پانچ منٹ بعد موسیقی چلتی ہے، موسیقی رکنے پر اراکین نئی کرسی پر بیٹھتے ہیں اور وفاداری بدل لیتے ہیں۔ دیوار پر لکھا ہے: “ضمیر کی آواز پر پارٹی بدلی — اور وزارت حاصل کی!” جو کرسی پر نہ پہنچا، وہ اپوزیشن کا حصہ بن جاتا ہے۔
معلومات تک رسائی کے پویلین میں مکمل تاریکی چھائی ہوتی ہے۔ جیسے ہی کوئی سوال کرتا ہے، آواز آتی ہے: “یہ نیشنل سیکیورٹی کا مسئلہ ہے!” اور دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ باہر لکھا ہوتا ہے: “یہ جرم ہے، آپ نے سالمیت پر حملہ کیا”۔
“کرپشن کا قانونی جشن” نامی حصہ بتاتا ہے کہ کیسے مقامی حکومتوں کے ترقیاتی فنڈز کو اراکین اسمبلی کے ذریعے استعمال کرنے کا قانون منظور کیا گیا ہے۔ عوام کے لیے مختص فنڈز اب سیاسی مفادات یا ذاتی ضروریات پر خرچ کیے جا سکتے ہیں۔ یہ قانون کرپشن کو ادارہ جاتی شکل دیتا ہے — گویا لوٹ مار کو اب سرکاری مہر اور اسمبلی کی منظوری حاصل ہو گئی ہے۔
ایکسپو کے اختتام پر “گڈ گورننس ایوارڈز” کی تقریب ہوتی ہے، جہاں مختلف طنزیہ اعزازات دیے جاتے ہیں۔ میرٹ کا گلہ گھونٹنے پر گولڈ میڈل، عوام کو دھوکہ دینے پر خصوصی شیلڈ، احتساب روکنے پر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، آئین کو ربر بینڈ بنانے پر تخلیقی قانون سازی کا ایوارڈ، مراعات میں مسلسل اضافہ کرنے پر وی آئی پی فلاحی ریاست کا تمغہ، معلومات چھپانے پر “شفافیت شکن ایوارڈ”، وفاداریاں بدلنے کی مہارت پر تمغۂ استقامت، جمہوریت کو تماشہ بنانے پر “سرکس آف دی ایئر” ٹرافی، اشرافیہ کی گاڑیوں کی دوڑ میں کامیابی پر “فلاحی سوار اعزاز” اور لارڈ کیننگ کی وراثت کو زندہ رکھنے پر “کولونیل وفاداری میڈل” دیا جاتا ہے۔
آخر میں، لاشوں پر کھڑے ہو کر اقتدار اور مراعات سمیٹنے والوں کو ایک خصوصی اعزاز دیا جاتا ہے، اور باہر نکلنے والے شائقین کو ایک بروشر تھما دیا جاتا ہے جس پر درج ہوتا ہے:”شکریہ، آپ نے آزاد کشمیر ایکسپو 2025 کا دورہ کیا۔”
اور فضا میں ایک نعرہ گونجتا ہے:
“تحریک آزادی کشمیر زندہ باد!”