انوارالحق سرکار کا آزادکشمیر بجٹ میں 71ارب روپے کے خسارے کے جھوٹے دعوے کا پول کھل گیا

مظفرآباد( ذوالفقار علی،کشمیر انوسٹی گیشن ٹیم) (کے آئی ٹی)آزاد کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوار الحق نے جمعے کے روز مظفرآباد کے قریب واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے افتتاح کے موقع پر افسران سے خطاب کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ آزاد کشمیر کو بجلی اور آٹے کی سبسڈی کی وجہ سے ابتدائی طور پر رواں مالی سال میں 71 ارب روپے کا خسارے کا سامنا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے پاکستان کی حکومت سے ایک روپے کی بھی گرانٹ حاصل کیے بغیر، اپنے داخلی ذرائع اور پاکستان کی طرف سے دیے گئے ٹیکس شیئر کے اندر رہتے ہوئے اس خسارے پر قابو پایا، اور رواں سال حکومتِ آزاد کشمیر کو ایک روپے کا بھی بجٹ خسارہ نہیں ہوا۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت نے مقامی ذرائع سے آمدن میں اضافہ کیا۔ ان کے مطابق گزشتہ مالی سال میں ٹیکسوں سے 50 ارب روپے کی آمدنی ہوئی تھی جبکہ رواں سال اس کا ہدف 75 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے اور جون کے آخر تک 70 ارب روپے کی وصولی متوقع ہے۔

تاہم وزیراعظم کے یہ دعوے حقائق کے بالکل برعکس ہیں۔
مالی سال 2024-2025 میں حکومتِ آزاد کشمیر نے غیر ترقیاتی بجٹ کا تخمینہ 220 ارب روپے لگایا ہے۔ اس رقم میں مختلف محکموں اور اداروں کے روزمرہ کے اخراجات کے علاوہ گندم کی خریداری، ترسیل، انسیڈنٹل چارجز اور پسوائی پر 41 ارب 60 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اسی طرح انرجی اور واٹر ریسورسز کے شعبے، جس میں بجلی کی خریداری بھی شامل ہے، کے لیے 10 ارب 80 کروڑ روپے جبکہ متفرق الاونسز کے لیے 21 ارب 50 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پنشن کی مد میں 43 ارب 14 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

آمدن کے تخمینے کے مطابق آزاد کشمیر حکومت نے مالی سال 2024-2025 کے لیے مجموعی آمدن 201 ارب روپے ظاہر کی ہے۔ اس میں سے 96 ارب روپے مقامی ذرائع سے حاصل ہونے کی توقع کی گئی ہے جبکہ باقی 105 ارب روپے حکومتِ پاکستان کی طرف سے ٹیکس شیئر کے طور پر دیے جائیں گے۔

اس بجٹ میں کئی اہم آمدنی کے ذرائع کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ مثلاً حکومت نے گندم کی خریداری اور ترسیل پر 41 ارب 60 کروڑ روپے کا خرچ ظاہر کیا ہے جس میں حکومت آزاد کشمیر کی طرف کوئی 25 ارب روپے کی سبسڈی شامل ہے۔ تاہم آٹے کی فروخت سے حاصل ہونے والی 13 ارب 50 کروڑ روپے کی آمدنی کو بجٹ میں بالکل ظاہر نہیں کیا گیا۔

اگر حکومت صرف سبسڈی کی رقم اخراجات میں ظاہر کرتی تو آمدنی کے بغیر بھی حساب درست رہتا، مگر جب پورا خرچ ظاہر کیا گیا ہے تو آمدن کو چھپانا بجٹ کو غیر شفاف بناتا ہے۔

اسی طرح حکومتِ آزاد کشمیر بجلی حکومتِ پاکستان سے 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ کی قیمت پر خریدتی ہے۔ یہ لاگت اخراجات میں شامل ہے لیکن بجلی کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کو بجٹ میں کہیں ظاہر نہیں کیا گیا۔ بجٹ میں آمدن 201 ارب روپے اور اخراجات 220 ارب روپے دکھائے گئے ہیں

یوں 19 ارب روپے کا بجٹ خسارہ ظاہر کیا گیا ہے۔ لیکن اگر آٹے کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کو شامل کر لیا جائے تو آمدن کا تخمینہ 214 ارب 50 کروڑ روپے تک پہنچتا ہے اور بجٹ خسارہ صرف 5 ارب 50 کروڑ روپے رہ جاتا ہے۔ اگر بجلی کی فروخت سے ہونے والی آمدنی کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ خسارہ مزید کم ہو سکتا ہے۔

اب اگر اخراجات کو مزید تفصیل سے دیکھا جائے تو تنخواہوں کی مد میں 48 ارب روپے، الاونسز کی مد میں 41 ارب روپے اور پنشن کی مد میں 43 ارب روپے خرچ ہونے کا تخمینہ ہے، جو مجموعی طور پر 132 ارب روپے بنتے ہیں۔

گندم سے متعلق اخراجات 41 ارب 60 کروڑ روپے اور متفرق گرانٹس 20 ارب روپے کے لگ بھگ ہیں، یوں کل اخراجات کا تخمینہ 193 ارب 60 کروڑ روپے بنتا ہے۔ دوسری طرف اگر آمدن کا حقیقی تخمینہ لگایا جائے تو ٹیکس سے 75 ارب روپے کی آمدن متوقع تھی لیکن اب تک صرف 61 ارب روپے وصول ہوئے ہیں۔ جون کے آخر تک مزید 9 ارب روپے کی وصولی ممکن ہے

یوں کل ٹیکس آمدن 70 ارب روپے تک پہنچ سکتی ہے اور دیگر ذرائع اور پاکستان کی طرف سےسے ٹیکسز میں شئیر ملا کر کل آمدن 209 ارب روپے بنتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اخراجات 193 ارب روپے اور آمدن 209 ارب روپے کے لگ بھگ ہونے کی صورت میں حکومت کو تقریباً 15 ارب روپے کی بچت ہوگی، نہ کہ 71 ارب روپے کا خسارہ جیسا کہ وزیراعظم نے دعویٰ کیا۔

اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ بجٹ میں جو 19 ارب کا خسارہ ظاہر کیا گیا تھا وہ حقیقت کی بلکل برعکس تھا اور اسی طرح سے وزیراعظم کے اس بیان کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں کہ رواں مالی سال میں 71 ارب روپے کا خسارہ رہا تھا۔ ان کا یہ بیان بجٹ میں دکھائے گئے خسارے کے بھی بلکل برعکس تھا۔

اسی طرح وزیراعظم کا یہ بیان بھی حقائق کے منافی ہے کہ حکومتِ آزاد کشمیر بجلی پر سبسڈی دے رہی ہے۔ اصل صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں نیپرا بجلی 31 روپے 20 پیسے فی یونٹ کے حساب سے فروخت کرتی ہے، جبکہ آزاد کشمیر کو یہ بجلی حکومتِ پاکستان کی جانب سے 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ پر فراہم کی جاتی ہے، اور دونوں نرخوں کے درمیان جو فرق ہے، وہ حکومتِ پاکستان بطور سبسڈی خود ادا کرتی ہے۔

رواں مالی سال میں حکومتِ پاکستان نے آزاد کشمیر کے لیے بجلی کی سبسڈی کی مد میں اپنے بجٹ میں 108 ارب روپے مختص کیے ہیں، مگر وزیراعظم نے اپنی تقریر میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا بلکہ غلط دعوی کیا کہ آزاد کشمیر کی حکومت سبسڈی ادا کررہی ہے۔

اس کے علاوہ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ سال ٹیکس آمدن 50 ارب روپے تھی، جبکہ حقیقت میں یہ رقم 55 ارب روپے تھی۔
ان تمام اعداد و شمار اور حقائق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق کے بجٹ اور سبسڈی سے متعلق دعوے زمینی حقائق اور سرکاری اعداد و شمار سے مطابقت نہیں رکھتے۔

بھارت کو پانی بطور ہتھیار استعمال کرنے اجازت نہیں دیں گے: وزیراعظم شہباز شریف

Scroll to Top