’’کلاؤڈ برسٹ‘‘ یا بادل پھٹنے کا مطلب کسی مخصوص علاقے میں اچانک بہت کم وقت میں گرج چمک کیساتھ بہت زیادہ اور موسلادھار بارش کا ہونا ہے جس کے باعث سیلابی صورتحال پیدا ہو جائے۔
بادل پھٹنے کا واقعہ اس وقت پیش آتا ہے جب زمین یا فضا میں موجود بادلوں کے نیچے سے گرم ہوا کی لہر اوپر کی جانب اٹھتی ہے اور بادل میں موجود بارش کے قطروں کو ساتھ لے جاتی ہے۔
اس وجہ سے عام طریقے سے بارش نہیں ہوتی اور نتیجے میں بادلوں میں بخارات کے پانی بننے کا عمل بہت تیز ہو جاتا ہے کیونکہ بارش کے نئے قطرے بنتے ہیں اور پرانے قطرے اپ ڈرافٹ کی وجہ سے واپس بادلوں میں دھکیل دئیے جاتے ہیں۔
اس کا نتیجہ طوفانی بارش کی شکل میں نکلتا ہے کیونکہ بادل اتنے پانی کا بوجھ سہار نہیں سکتا، یوں بادلوں کا پانی گویا اس طرح بہتا ہے کہ بالٹی الٹ دی گئی ہے۔
کلاؤڈ برسٹ کے واقعات ماضی میں پاکستان اور انڈیا اور آزادکشمیر سمیت مقبوضہ کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں پیش آتے رہے ہیں جہاں کم اونچائی والے مون سون بادل اونچے پہاڑوں سے ٹکرا کر رک جاتے ہیں اور برس پڑتے ہیں۔
2019میں وادی نیلم کے علاقے لیسوا میںبادل پھٹنے سے 22افراد بہہ گئے تھے جبکہ بڑے پیمانے پر تباہی بھی ہوئی تھی۔ 2021 میں ایک بار پھرسالخلہ میں کلائوڈ برسٹ ہوا جس میں دو افراد جاں بحق ہوئے۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کلاؤڈ برسٹ کے زیادہ ترواقعات پہاڑی علاقوں میں رونما ہوتے ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق اگر کسی علاقے میں ایک گھنٹے میں 200 ملی میٹر بارش ہوجائے تو اسے کلاؤڈبرسٹ کہا جا سکتا ہے۔
کون کون سے ممالک میں کلائوڈ برسٹ آچکے ہیں؟
ویکیپیڈیا کے مطابق مارچ 1952 میں رے یونیوں میں کلائوڈ برسٹ آیا جس کا دورانیہ24 گھنٹے تھا جبکہ 8جون 1966میں بنگلہ دیش بھارت میں 20گھنٹے کا کلائوڈ برسٹ آیا جس میں 2329ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
8جنوری 1966میں رے یونیوں میں13گھنٹے کا کلائوڈ برسٹ آیا،26جولائی 2005 کو بھارت کے شہر میں 10گھنٹے کا کلائوڈ برسٹ ہواجبکہ 2اپریل 2013 کو ارجنٹائن کےش ہر لاپلاتا میں 5گھنٹے پر مشمل کلائوڈ برسٹ آچکا۔
2009میں کراچی،2001میں اسلام آباد میں بھی کلائوڈ برسٹ آچکے جبکہ ورجینیا، رومانیہ، جمیکا، لداخ ، بھارت کےشہروں مہاراشٹر،اتراکھنڈ میں بھی کلائوڈ برسٹ ہوچکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مظفرآباد،بادل پھٹنے سے3خواتین جاں بحق،ایک شخص لاپتہ،25مکان تباہ