(کشمیر ڈیجیٹل)امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکہ اور چین کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کے بعد بھارت عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو گیا ہے۔
ایک نجی میڈیا سروس کے مطابق، رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2014 میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے چین کے صدر شی جن پنگ کا ریڈ کارپٹ استقبال کیا، تاہم اسی وقت چینی فوجی بھارتی سرحد پر ان کے فوجیوں کے ساتھ جھڑپ میں الجھ گئے۔ اس صورتحال نے مودی کو نہ صرف شرمندگی سے دوچار کیا بلکہ بھارتی فوج کو سخت سردی والے علاقوں میں جنگی تیاری کی حالت میں رکھنا پڑا، جس سے ملک کی معیشت کو بھی دھچکا لگا۔
سالوں بعد مودی نے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی پیدا کرنے کی کوشش کی اور اپنی سیاسی ساکھ کو داؤ پر لگا کر اس رشتے کو تیزی سے آگے بڑھایا۔ اپنی پہلی وزارتِ عظمیٰ کے دوران انہوں نے اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے قریبی تعلقات قائم کیے اور حتیٰ کہ پروٹوکول توڑ کر ہیوسٹن میں ایک بڑے اسٹیڈیم میں ان کی انتخابی مہم میں شریک ہوئے۔ بعد میں بائیڈن انتظامیہ نے بھی تعلقات کو آگے بڑھایا کیونکہ بھارت کو چین کے خلاف ایک مضبوط اتحادی کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
تاہم حال ہی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روسی تیل کی خریداری کا حوالہ دیتے ہوئے بھارت پر 50 فیصد بھاری ٹیرف عائد کر دیا اور بھارتی معیشت کو “مردہ” قرار دے دیا، جس نے مودی کو سیاسی طور پر سبکی میں ڈال دیا۔ اس سے قبل رواں سال کے آغاز میں پاک-بھارت تنازعے کے دوران ٹرمپ نے پاکستانی قیادت کو بھارت کے مساوی حیثیت دینے اور ثالثی کے ذریعے جنگ بندی کرانے کا دعویٰ کیا، جس پر بھارتی قیادت ناخوش ہو گئی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان تمام عوامل نے بھارت کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں اسے اپنی طاقت کا ازسرِ نو جائزہ لینا پڑ رہا ہے۔ بڑی اور تیزی سے بڑھتی معیشت ہونے کے باوجود مودی نے حالیہ دنوں میں اعتراف کیا کہ تجارتی تنازعے پر انہیں سیاسی قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔
بھارت اب بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور مودی سات سال بعد رواں ماہ کے آخر میں چین کے دورے پر جانے والے ہیں، مگر سرحدی جھڑپوں اور پاکستان کے ساتھ کشیدگی میں چین کی جانب سے اسلام آباد کی حمایت کے باعث تعلقات میں تناؤ برقرار ہے۔ اس کے برعکس مودی نے کہا ہے کہ وہ سال کے اختتام پر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی بھارت آمد کے منتظر ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بھارت کی یہ خواہش کہ وہ ایک معاشی اور سفارتی طاقت کے طور پر اپنے عروج کو مضبوط کرے، غیر یقینی صورتحال کے باعث ماند پڑتی جا رہی ہے۔ بھارتی حکام اور ماہرین کا ماننا ہے کہ ملک کو اپنی پرانی اور آزمودہ اسٹریٹجک خود مختاری کی پالیسی کی طرف واپس جانا ہوگا۔
بیجنگ اور واشنگٹن میں بھارت کی سابق سفیر نیروپما را نے کہا کہ ٹرمپ کے سخت اقدامات نے اسٹریٹجک شراکت داری کی اس بنیاد کو ہلا دیا ہے جو دو دہائیوں سے زیادہ عرصے میں بڑی محنت سے تعمیر کی گئی تھی۔ نئی دہلی کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نہایت عملی اسٹریٹجک ایڈجسٹمنٹ کرنی ہو گی۔
رواں ہفتے ٹرمپ کے بھاری ٹیرف کے اعلان کے بعد مودی نے ایک عوامی جلسے سے خطاب میں کہا کہ بھارت کبھی بھی اپنے کسانوں اور ماہی گیروں کے مفاد پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا، “مجھے معلوم ہے کہ ذاتی طور پر مجھے بھاری قیمت چکانی پڑے گی اور میں اس کے لیے تیار ہوں۔”
امریکی جریدے نے یہ بھی لکھا کہ تعلقات کی خرابی کا آغاز اس وقت ہی ہو گیا تھا جب ٹرمپ نے روسی تیل کے معاملے پر توجہ مرکوز کی۔ حکام اور تجزیہ کاروں کے مطابق، بگاڑ کی ایک وجہ صدر ٹرمپ کی ذاتی ناراضگی بھی تھی۔ رواں برس مئی میں جب پاک-بھارت کشیدگی سرحد پار جھڑپوں تک پہنچ گئی تو ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے دونوں ممالک پر دباؤ ڈال کر جنگ بندی کرائی۔ پاکستانی حکام نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا اور یہاں تک کہ ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے تجویز کیا، مگر بھارتی حکام نے امریکی صدر کے اس دعوے کی تردید کر دی اور موقف اختیار کیا کہ مودی نے اپنی عسکری طاقت کے ذریعے پاکستان کو جنگ بندی کی درخواست پر مجبور کیا۔
یہ بھی پڑھیں: یوٹیوب کا نیا فیچرمتعارف: اے آئی سے صارفین کی عمر کی جانچ
سابق بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے مشیر سنجایا بارو نے کہا کہ جب آپ کے پاس دو ایسے رہنما ہوں جو انا پرست ہوں اور تعلقات کو ذاتی انداز میں دیکھتے ہوں، تو ملکوں کے درمیان تعلقات بھی اسی انداز میں متاثر ہوتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ وہ قیمت ہے جو بھارت کو آج ادا کرنی پڑ رہی ہے۔