مظفرآباد (کشمیر ڈیجیٹل) کشمیری مہاجرین 1989ء کو درپیش سنگین مسائل پارلیمانی سطح پر اجاگر کرتے ہوئےعزیر احمد غزالی نے اسلام آباد میں پارلیمنٹری کشمیر کمیٹی اجلاس میں پردہ چاک کر دیا۔
امیر مہاجرین جموں کشمیر 1989ء عزیر احمد غزالی نے پارلیمنٹری کمیٹی برائے مہاجرین کے اجلاس میں حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کی توجہ کشمیری مہاجرین کی ابتر حالت کی جانب مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ بیس کیمپ حکومت کا استحصالی رویہ مہاجرین کو دہائیوں سے بستیوں میں محصور رکھے ہوئے ہے۔
عزیر غزالی نے واضح کیا کہ 36 سال گزرنے کے باوجود مہاجرین نہ زمین کے مالک بن سکے، نہ ان کے پاس ذاتی گھر ہیں، اور نہ ہی انہیں مکمل شہری حقوق حاصل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شناختی کارڈ کی تجدید اور ڈومیسائل کے اجرا جیسے بنیادی معاملات آج بھی پیچیدگی کا شکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ مہنگائی کے دور میں معمولی گزارہ الاؤنس سے بچوں کی تعلیم، علاج اور دیگر بنیادی ضروریات پوری کرنا ممکن نہیں رہا۔ آزاد کشمیر میں سرکاری ملازمتوں کے لیے مہاجرین کے مختص 6 فیصد کوٹہ پر عملدرآمد نہ ہونے، اور سکیل ایک کی آسامیوں کی عدم دستیابی نے نوجوانوں کو مایوسی کی گہری کھائی میں دھکیل دیا ہے۔
عزیر غزالی نے کمیٹی کو بتایا کہ مہاجرین کو آج تک آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں نمائندگی نہیں دی گئی، جس کی وجہ سے ان کے دیرینہ مسائل مسلسل نظرانداز کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے محکمہ بحالیات کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حقائق کو چھپا کر مہاجرین کے زخموں پر نمک پاشی کی جا رہی ہے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ حکومت آزاد کشمیر نے گزشتہ 20 برسوں میں صرف 300 گھر ٹھوٹھہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں تعمیر کیے، جبکہ دیگر 18 مہاجر بستیوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کرائے کے گھروں میں مقیم 3100 خاندان آج بھی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
غزالی نے بتایا کہ مہاجرین کی ورکنگ کمیٹی نے آبادکاری اور مسائل کے حل کے لیے ایک جامع چارٹر آف ڈیمانڈ حکومت پاکستان، آزاد کشمیر اور متعلقہ اداروں کو پیش کیا تھا، مگر اس پر تاحال عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پارلیمنٹری کمیٹی کے کنوینئر ایم این اے محمد ریاض فتیانہ نے کہا کہ کشمیری مہاجرین ہمارے جسم و جاں کا حصہ ہیں اور ان کی فلاح و بہبود ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ انہوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت دی کہ ایک ہفتے کے اندر گزارہ الاؤنس میں 1500 سے 2000 روپے اضافے کی سمری وزیراعظم شہباز شریف کو ارسال کی جائے۔
ریاض فتیانہ نے تجویز دی کہ مہاجرین 1989ء کو آزاد کشمیر اسمبلی میں دو نشستیں دی جائیں اور انہیں فوری طور پر ڈومیسائل جاری کیے جائیں۔ انہوں نے وفاقی اور ریاستی حکام کو ہدایت دی کہ مہاجرین کی آبادکاری کے لیے ایک جامع روڈ میپ تیار کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: ہمارے بغیر دنیا کی معیشت بیٹھ جائے گی: امریکی صدر کا دعویٰ
اجلاس سے رکن قومی اسمبلی کامل علی آغا نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ مہاجرین کو مکمل شناخت اور شہری حقوق دینا ریاست کی آئینی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔