کیا آپ جانتے ہیں کہ دبئی، ابوظہبی، عمان اور خلیج کے کئی علاقے کبھی برطانوی ہندوستان کے ماتحت شمار کیے جاتے تھے؟ یہ کوئی قیاس نہیں، بلکہ بیسویں صدی کے آغاز میں ایک تاریخی حقیقت تھی جو وقت کے ساتھ پس منظر میں چلی گئی۔
آج انہی خلیجی ریاستوں کی ترقی نے دنیا کو حیران کر رکھا ہےمگر ایک وقت تھا جب یہ ریاستیں دہلی کے وائسرائے کو جوابدہ تھیں اور انڈین پولیٹیکل سروس کے تحت چلتی تھیں۔یہ 1956 کی سردیوں کا واقعہ ہے جب معروف صحافی ڈیوڈ ہولڈن بحرین پہنچے۔ ان کے بقول دبئی، عمان اور ابوظہبی جیسے علاقوں میں برطانوی راج کے اثرات اس قدر گہرے تھے کہ وہاں خود کو انڈیا کا حصہ محسوس ہوتا تھا۔ انھوں نے لکھا کہ یہاں انگریز راج کی ایک غیر مرئی حکمرانی موجود ہے، جو وقت اور جگہ کی قید سے آزاد لگتی ہے۔
خلیج میں ایسے مناظر عام تھے جہاں مقامی لوگ اینگلو انڈین روایات کے مطابق زندگی گزار رہے تھے۔ اتوار کو مہمانوں کے لیے سالن کی ضیافت، خادموں کو ’بیئرر‘ کہنا اور فوجی وردیاں تک نظام حیدرآباد کی تھیں، حتیٰ کہ یمن کے علاقے قعیطی کے سپاہی اب بھی انہی وردیوں میں مارچ کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمان کے سلطان عربی سے زیادہ اردو میں روانی رکھتے ہیں کیونکہ وہ راجستھان (انڈیا) میں تعلیم یافتہ ہیں۔ اسی طرح عدن، جو آج یمن کا حصہ ہے کبھی بمبئی کا بندرگاہی ضلع تھا اور 1937 تک باضابطہ طور پر برطانوی ہندوستان میں شامل تھا۔
خلیج میں انڈین راج:
برطانوی دور میں عدن سے کویت تک کا علاقہ دہلی کے تحت انڈین پولیٹیکل سروس چلاتی تھی۔ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے انڈین سپاہی تعینات ہوتے اور ان علاقوں کے رہائشیوں کو انڈین پاسپورٹ جاری کیے جاتے تھے۔ سن 1889 کے انٹرپریٹیشن ایکٹ کے تحت ان ریاستوں کو قانونی طور پر ہندوستان کا حصہ شمار کیا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ وائسرائے لارڈ کرزن نے عمان کو بھی قلات یا لسبیلہ جیسی انڈین ریاستوں کی طرز پر تسلیم کرنے کی تجویز دی تھی۔
تاریخی موڑ:
یکم اپریل 1937 کو عدن کو باضابطہ طور پر انڈیا سے علیحدہ کر کے براہ راست برطانوی نوآبادیاتی نظام کے حوالے کر دیا گیا۔ اگر یہ بیوروکریٹک فیصلہ نہ کیا جاتا تو ممکن تھا کہ آزادی کے بعد یہ خلیجی ریاستیں بھی انڈیا یا پاکستان کا حصہ بن جاتیں۔ مگر 1947 میں آزادی سے چند ماہ قبل دبئی سے کویت تک کی ریاستوں کو خاموشی سے ہندوستان سے الگ کر دیا گیا اور یہ معاملہ عوامی سطح پر زیادہ اجاگر نہ ہو سکا۔
آخری دور اور اختتام:
انڈیا کی آزادی کے بعد بھی خلیجی ریاستوں پر انڈین پولیٹیکل سروس کے اہلکار ہی تعینات رہے۔ خلیج کی کرنسی انڈین روپیہ رہی اور بحری سفر کے لیے ’برٹش انڈیا لائن‘ استعمال ہوتی تھی۔ لیکن بالآخر 1971 میں برطانیہ نے خلیج سے اپنی موجودگی ختم کی اور ان ریاستوں نے اپنی خودمختار شناخت قائم کر لی۔ آج یہ ریاستیں اپنی ترقی، خودمختاری اور تیل کی دولت کے باعث عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ کبھی دبئی اور ابوظہبی جیسے شہر انڈین راج کے نظام میں شامل تھے۔ اگر تاریخ کا فیصلہ مختلف ہوتا تو شاید آج یہ خطے پاکستان یا بھارت کا حصہ ہوتے۔
یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں حبس برقرار، مختلف علاقوں میں گرج چمک ، موسلادھار بارش کی پیشگوئی
یہ تحریر ڈیوڈ ہولڈن، پال رِچ، بی بی سی اور دیگر مستند تاریخی حوالوں سے اخذ شدہ معلومات پر مبنی ہے۔ اس میں کوئی ذاتی رائے یا قیاس آرائی شامل نہیں۔