آزاد کشمیرمیں دوا نہیں موت بانٹی جا رہی ہے!صحافی فوادصادق کے انکشافات

مظفرآباد :آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سمیت مختلف علاقوں میں جعلی، ایکسپائرڈ اور غیر معیاری ادویات کا دھندہ کئی دہائیوں سے جاری ہے، مگر متعلقہ ادارے اس پر مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

معروف صحافی فواد صادق نےکشمیر ڈیجیٹل کے ایک پروگرام  میں انکشاف کیا ہے کہ شہر کے لوگ ادویات کو ایسے استعمال کرتے ہیں جیسے روزمرہ کھانے کی اشیاء ہوں لیکن ادویات کا کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ یہ جعلی یا غیر معیاری ہوتی ہیں۔

فواد صادق کا کہنا ہے کہ گلی محلوں میں جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریاں کھلے عام کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ “مظفرآباد میں لوگ دوا نہیں بلکہ سلو پوائزن لے رہے ہیں، کیونکہ جو ادویات مارکیٹ میں دستیاب ہیں وہ یا تو جعلی ہیں یا ایکسپائرڈ۔ انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ نارمل سیلائن واٹر جیسا بنیادی جز، جو ڈی ہائیڈریشن اور ڈرپ لگنے کے لیے استعمال ہوتا ہے بلکہ ہر مریض کے علاج میں استعمال ہوتا ہے، اس کی ایکسپائری تاریخ تبدیل کر کے پورے کشمیر میں فروخت کیا جا رہا ہے۔

فواد صادق کے مطابق یہ مافیا انسانی جانوں سے کھیل رہا ہے اور یہ موت بانٹنے کا کاروبار ہے۔ کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں، کوئی مستقل کارروائی نہیں بلکہ انہوں نے سوال اٹھایا کہ نیلم سمیت آذاد کشمیر بھر میں یہ ہی ادویات جاتی ہیں مگر وہاں کبھی کوئی کارروائی کیوں نہیں دکھائی دے رہی؟

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا پیغام سچ اور امن کا ہے، بھارت پانی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے، بلاول بھٹو زرداری

سابق ڈرگ انسپکٹر فوزیہ اشرف کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ ایک باہمت خاتون تھیں اور مردوں سے بڑھ کر دلیری سے جعلی ادویات کے خلاف کارروائیاں کرتی تھیں، ان کے ذمانے میں بھی شفا ڈرگ اسٹور 4 ماہ تک بند رہا،لیکن اس کے بعد کوئی خاطر خواہ کاروائی نہیں ہوئی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب کارروائیاں صرف سٹور بند کرنے تک محدود ہو گئی ہیں، جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ جعلی دوا بنانے والوں کو موقع پر گرفتار کیا جائے اور سخت قانونی کارروائی کی جائے۔ڈرگ انسپکٹر مظفرآباد باہر فیلڈ میں نکلنے کے بجائے اے سی والے روم میں بیٹھ کر لوگوں کو مرتے دیکھ رہا ہے۔تبدیل ہونے والے ڈی ایچ او نے موجودہ ڈرگ انسپکٹر کی نااہلی پر سیکرٹری ہیلتھ کو مکتوب بھی تحریر کیا تھا لیکن کوئی شنوائی نہیں۔

Scroll to Top