پاک فوج ہماری محافظ ہے، شہداء کی توہین برداشت نہیں کریں: صدر ایکس سروس مین سوسائٹی ضلع باغ

باغ : ایکس سروس مین سوسائٹی ضلع باغ کے صدر راجہ آزاد نے ایک اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج ہماری محافظ ہے، شہداء کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کریں گے،سی ایم ایچ باغ کا قیام ہمارا مطالبہ ہے۔

راجہ آزاد نے کہا کہ پاک فوج ہماری محافظ ہے، شہداء کی توہین ناقابل برداشت ہے، راجہ آزاد نے سی ایم ایچ باغ کے قیام کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ سی ایم ایچ باغ ہمارا مطالبہ ہے اور اس کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔

انھوں نے کہا کہ نظریہ کوئی جو چاہے رکھے ہم اس پر اعتراض نہیں کریں گے، لیکن ہمارے شہداء کی توہین ہم برداشت نہیں کریں گے۔ پاک فوج بارڈر پر جاگتی ہے تو ہم سکون کی نیند سوتے ہیں۔ ہمارے اساتذہ نے نوجوان نسل کو ہمارے اسلاف کی قربانیوں کا بتانے کے لیے اپنا صحیح کردار ادا نہیں کیا۔ ہمارے اسلاف کن کن حالات سے گزرے ہیں، اس کا نوجوان نسل کو پتا ہونا چاہیے مزید یہ کہ آزاد کشمیر کے 35 فیصد سے زائد افراد پاک فوج میں حاضر سروس ہیں، جو شدید ترین موسمی حالات میں قوم کے دفاع پر معمور ہیں۔ میں خود سرحد پر تعینات رہا ہوں، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ -30 ڈگری کی یخ بستہ سردی میں ہمارے جوان پہاڑوں میں برف پگھلا پگھلا کر پانی پیتے ہیں، وہاں زمین نظر ہی نہیں آتی۔

راجہ آزاد نے بھارتی فوج کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سرحد پار ہمارے مسلمان بھائیوں اور ان کی خواتین کے ساتھ بھارتی فوج کس طرح کا سلوک کرتی ہے، یہ ناقابل بیان مظالم ہیں اور باغ کے کئی نوجوانوں نے پاک فوج میں خدمات انجام دیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ شہید سعد بن زبیر کا تعلق بھی باغ سے تھا۔ ان جیسے شہداء کے خاندانوں پر کیا گزرتی ہوگی جب ان کے پیاروں کی توہین کی جاتی ہے؟

راجہ آزاد نے کہا کہ ریٹائرڈ فوجیوں نے جہاد کے لیے لوگوں کو تیار کر کے یہ حصہ آزاد کروایا ہے۔ آپ کے جتنے بھی بارڈر ہیں، ان پر رات بھر فوج جاگتی ہے تو ہم سکون کی نیند سوتے ہیں اوربارڈر کے پار کسی کی عزت محفوظ نہیں ہے اور یہ کہ میجر رفیق شہید، میجر طیب شہید، میجر سعد بن زبیر اس شہر سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے قربانیاں دی ہیں۔ راولا کوٹ میں مرتضیٰ نے شہداء کے خلاف جو تقریر کی میں اس کی مذمت کرتا ہوں۔ کوئی کہتا ہے آزاد کشمیر خودمختار ہو، ایک چیز حاصل ہی نہیں تو اس کا فیصلہ کیسے ہوگا؟ نوجوان نسل سے میں سوال کرتا ہوں جہاد کی آپ نے کیا تیاریاں کی ہوئی ہیں؟

انہوں نے تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ ساری زمینیں ڈوگرہ مالکان کی تھیں ۔ ہمارے لوگ کوہالہ سے سودا لے کر آتے تھے، ہمارے علاقے میں بارشیں ہوتی تھیں تو پیداوار اچھی ہوتی تھی، جو ڈوگرہ کو جاتی تھی۔ پھر یہیں کے لوگ ان ڈوگرہ حکمرانوں سے قرض لیتے تھے اور سود سمیت واپس کرنا ہوتا تھا۔ ان سب مشکلات کا آج کے لوگوں کو کیا پتا؟ ڈوگرہ کے زمانے میں لوگوں سے بیگار لی جاتی تھی۔

Scroll to Top