آزادکابینہ نے آزادکشمیر رینجرز کے نام سے نئی فورس کے قیام کی منظوری دیدی

مظفرآباد(ذوالفقار علی کشمیر انوسٹی گیشن ٹیم) آزاد کشمیر کی کابینہ نے 1000 اہلکاروں پر مشتمل آزاد کشمیر میں اے کے رینجرز کے نام سے نئی فورس کے قیام کی منظوری دیدی۔
سرکاری ذرائع کے مطابق ان کی گاڑیوں کیلئے ایک ارب روپے، اسلحہ کیلئے 60 کروڑ روپے اور ماہانہ اخراجات کیلئے 22 کروڑ روپے کی بھی منظوری دی گئی ہے ۔

کابینہ سے یہ منظوری بائی سرکولیشن یعنی وزراء کی باضابطہ میٹنگ کئے بغیر تحریری طور پر حاصل کی گئی تھی ۔ ا گرچہ یہ طریقہ عموماً ہنگامی یا معمولی نوعیت کے فیصلوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن آزاد کشمیر میں اپریل 2023 میں چوہدری انوارلحق کی سربراہی میں مخلوظ حکومت کی قیام کی بعد یہی طریقہ اپنایا جارہا ہے۔

اے کے رینجرز کے سربراہ پاکستان کی فوج کے حاضر سروس کرنل ہونگےجبکہ دس اضلاع میں لیفٹیننٹ کرنل ضلعی فورس کے سربراہ ہوں گے اور ہر کمپنی کے سربراہ پاکستان کی فوج کے حاضر سروس میجر ہوں گے۔

اس فورس میں 25 فیصد اہلکار نان سٹیٹ سبجیکٹ ہوں گے یعنی ان کا تعلق پاکستان کے مختلف شہروں سے ہوگایہ فورس آزاد کشمیر کی پولیس کےماتحت کام کرے گی ۔اے کے رینجرز کے قیام کیلئے حکومت پاکستان نے پہلے ہی منظوری دی تھی اور اس کیلئے بجٹ بھی فراہم کررہی ہے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق اس غرض کیلئے آزاد کشمیر کی حکومت نے لگ بھگ 4 ارب روپے حکومت پاکستان سے مانگے ہیں۔ واضح رہے کہ محکمہ داخلہ آزاد کشمیر نے 29 اگست 2024 کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ آزاد کشمیر کے محکمہ پولیس میں اے کے رینجرز کے نام سے نئی فورس کے قیام اور گریڈ 07 کے 1000 آسامیاں کی تخلیق کے علاوہ عائد پابندی میں نرمی بدیں شرط منظوری دی گئی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نوٹیفکیشن آزاد کشمیر میں جموںو کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے مئی 2024 میں حقوق کیلئے تحریک کے صرف ساڑھے تین ماہ بعد جاری کیا گیا تھا اس نوٹیفکیشن کے مطابق یہ نئی فورس پولیس مین ہی قائم جائے گی اور یہ پولیس کے ماتحت ہوگی۔

آزاد کشمیر میں پہلےہی 1200 اہلکاروں پر مشتمل پولیس رینجرزکام کررہی ہے۔ ان کا الگ ایس ہے اور ریروز اور پولیس رینجرز کے ایک ہی ڈی آئی جی ہیں۔ آزاد کشمیر میں اے کے رینجرز کے قیام کی فیصلے کے خلاف مختلف مکتبہ فکر کے لوگ مخالفت کررہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس کی باعث خطے میں صورت حال مزید پچیدہ ہوگی۔ لیکن حکومت اپنے اس فیصلے کا دفاع کررہی ہے۔

Scroll to Top