باغسر قلعہ کب تعمیر ہوا؟ قلعے میں ایسا کیا ہے جو دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے؟

بھمبر ( سید شہاب عباس،کشمیر ڈیجیٹل ) آزاد کشمیر کے ضلع بھمبر میں موجود باغسر قلعہ فن تعمیر کا عظیم شاہکار ہے جو دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں کرلیتا ہے،یہ قلعہ 16ویں صدی میں تعمیر کیاگیا ،مورخین کے مطابق اس قلعے پر مغلوں سمیت مختلف حکمرانوں کاقبضہ رہا،قلعے میں مختلف تہذیوں کے آثار نمایاں ہیں ،سطح سمندرسے تین ہزار 4سو 22فٹ بلند یہ قلعہ وادی سماہنی میں موجود ہے ۔

قلعے میں 80کمرے ہیں،اس کے باہر حفاظتی فصیل بھی موجود ہے،قلعے کے اندر دربار ہال، تالاب اور مسجد موجود ہے جبکہ مندر کے آثار بھی نمایاں ہیں ،قلعے سے مقبوضہ کشمیر کے علاقوں کا نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

 یہ بھی پڑھیں ۔۔پاک فوج اور محکمہ زراعت کا باغسر سیکٹر میں زیتون اور پھلدار پودوں کی کاشت کے لئے معلوماتی ورکشاپ کا انعقاد

مغل بادشاہ جہانگیر کی وفات بھی یہیں صحرائے سعد آباد سماہنی کے قریب ہوئی تھی ،شہنشاہ جہانگیر کے اندرونی اعضاء کی قبر بھی قلعہ باغسر کے احاطہ میں موجود ہے ۔
کچھ تاریخی عمارتیں ایسی بھی ہیں جن کی تعمیر کی تاریخ کا قطعی طور پر تعین نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کب اور کس کے ذریعے تعمیر کی گئیں باغ سر قلعہ بھی ان میں سے ایک ہے جس کی تعمیر کی تاریخ کے بارے میں درست معلومات دستیاب نہیں ہیں۔

کچھ کا خیال ہے کہ یہ قلعہ مغل دور میں بنایا گیا تھا، جب کہ بعض کا کہنا ہے کہ اس کی تعمیر ڈوگرہ دور حکومت میں کی گئی تھی۔. قلعہ کی بیرونی دیواریں مغل طرز کی معلوم ہوتی ہیں لیکن اس کا اندرونی حصہ مغل دور کا نہیں لگتا، قلعہ میں بنائے گئے نقش و نگار ہندو طرز تعمیر کی عکاسی کرتے ہیں ۔چار منزلہ باغ سر قلعہ کی تعمیر میں گرینائٹ کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا تھا۔

 یہ بھی پڑھیں ۔۔پاک فوج کا ایل او سی باغسر سیکٹر کے علاقے مالنی میں مفت میڈیکل کیمپ کا انعقاد

قلعہ کے اندر، مرکزی دروازے کی طرف ایک تالاب بھی ہے جو عام طور پر پہاڑی پانی جمع کرنے اور پورے قلعے کو پانی فراہم کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔با غسر کا مطلب ہے پانی اور باغات کی زمین با غسردراصل قدرتی خوبصورتی سے مالا مال علاقہ ہے، ڈوگرہ حکمران مہاراجہ رنبیر سنگھ نے باغ سر قلعہ کے مشرق میں ٹھنڈے پانی کی جھیل بنائی تھی یہ جھیل تقریباً آدھا کلومیٹر لمبی بہت سے مقامی اور نقل مکانی کرنے والے پرندوں، خاص طور پر بطخوں اور ہنسوں کا گھر ہے۔

یہ قلعہ اور اس کے دامن میں واقع جھیل کافی مشہور ہیں اور دونوں کا نام ایک ہی علاقے کے نام پر رکھا گیا ہے ، اس علاقے میں بہت سے باغات بھی ہیں۔
قلعہ کے آس پاس کی پہاڑیاں دیودار کے درختوں اور کنول سے ڈھکی ہوئی ہیں، کہا جاتا ہے کہ بہت سے بادشاہ قلعہ با غسر میں ٹھہرے اور اس علاقے کی آب و ہوا اور فطرت سے بھرپور لطف اندوز ہوئے۔

قلعہ باغ سر لائن آف کنٹرول پر واقع ہے جس کی وجہ سے اس کی دفاعی اہمیت بہت زیادہ ہے ، قلعہ کی دیوار بہت چوڑی ہے جس سے اگر دیکھیں تو طرف مقبوضہ کشمیر کے علاقے نظر آتے ہیں ۔

ہر سال ہزاروں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں لیکن ناکافی سہولیات کا تذکرہ کرتے بھی نظر آتے ہیں ۔ حکومت کواس تاریخی ورثے کو محفوظ بنانے کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

Scroll to Top