امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کا بھارت، افغانستان کٹھ جوڑ سے متعلق بڑا انکشاف

اسلام آباد/واشنگٹن: بھارت اور طالبان حکومت کے درمیان سفارتی روابط جوں جوں مضبوط ہو رہے ہیں، کابل اور اسلام آباد کے تعلقات میں واضح تناؤ پیدا ہو گیا ہے اور خطے میں نئی محاذ آرائی کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی جانب سے طالبان کے ساتھ سیاسی اور سفارتی روابط بڑھانے کی کوششوں نے پاکستان میں اسٹریٹجک بے چینی پیدا کر دی ہے۔

افغان حکام نے حال ہی میں پاکستان پر مشرقی افغانستان میں فضائی حملوں کا الزام لگایا، جس کے جواب میں کابل نے جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ پاکستان نے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ حملے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے کیے ہیں۔

واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ “اسلام آباد کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ طالبان اور بھارت دونوں ’ٹی ٹی پی‘ کو مختلف طریقوں سے معاونت فراہم کرتے ہیں، تاہم دونوں ممالک ان الزامات کو رد بھی کر رہے ہیں۔”

بھارت طالبان سے روابط کیوں بڑھا رہا ہے؟

رپورٹ کے مطابق نئی دہلی کی افغان پالیسی کا نیا رخ خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے اور افغانستان میں اپنے اقتصادی و سیاسی کردار کی بحالی ہے۔ بھارت کابل میں اپنے بند سفارت خانے کو کھولنے کی تیاری کر رہا ہے جو 2021 کے بعد ایک بڑی پیش رفت ہے۔

تجارت اور اقتصادی تعاون بڑھانے پر بات چیت ہو رہی ہے، خصوصاً پاکستان پر انحصار کم کرنے کے لیے متبادل تجارتی راستوں جیسے چابہار پورٹ کے استعمال کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ بھارت انسانی امداد اور ممکنہ ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے افغانستان میں اپنا کردار بحال کرنا چاہتا ہے تاکہ تعلقات بہتر ہوں اور خطے میں نئی سفارتی جگہ بن سکے۔

یہ بھی پڑھیں: چین کی اپنے شہریوں کو تاجکستانی سرحدی علاقہ چھوڑنے کی ہدایت، واقعہ پرافغانستان کا بھی ردعمل آگیا

طالبان حکومت بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھانا پاکستان پر انحصار کم کرنے، سفارتی تنہائی توڑنے اور نئے معاشی مواقع پیدا کرنے کا ذریعہ سمجھ رہی ہے۔

پاکستان کی پریشانی:

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق بھارت اور طالبان کے بڑھتے تعلقات پاکستان کی روایتی افغان پالیسی اور خطے میں اثر و رسوخ کے لیے خطرہ ہیں۔ پاکستان کو خدشہ ہے کہ کابل کا نئی دہلی کی طرف جھکاؤ اس کی اسٹریٹجک پوزیشن کمزور کر دے گا۔

افغانستان کی جانب سے بھارت کو اپنی سر زمین استعمال کرنے کی اجازت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت پاکستان میں بدامنی پیدا کرنے کے لیے مزید اقدامات کر سکتا ہے۔

بڑے خطرات:

رپورٹ کے مطابق اگر یہ تناؤ بڑھتا رہا تو پاک-افغان سرحد پر مسلح جھڑپوں کا امکان بڑھ سکتا ہے۔ افغانستان پاکستان کو نظرانداز کرتے ہوئے متبادل تجارتی راستے اختیار کرے گا، اور پاکستان کے اندر سیکیورٹی خطرات بڑھ سکتے ہیں، خصوصاً تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغان سرزمین کا مزید فائدہ اٹھائے گی۔ ایسی صورت حال میں پورا خطہ عدم استحکام کی طرف جا سکتا ہے، جس سے علاقائی امن کے امکانات کمزور ہو جائیں گے۔

بدلتی ہوئی علاقائی صورت حال:

رپورٹ کے مطابق 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان اپنی خارجہ پالیسی نئے خطوط پر استوار کر رہا ہے۔ طالبان حکومت ایران، وسطی ایشیائی ریاستوں اور اب بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھا کر سفارتی تنہائی کم کرنا چاہتی ہے، لیکن کابل حکومت کی اقتدار پر گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بھارتی دھمکی ناکام ، سکھ برادری نے پاکستان کیساتھ مکمل یکجہتی کا اعلان کر دیا

دوسری طرف، بھارت کے لیے طالبان سے تعلقات بڑھانا ایک عملی حکمت عملی ہے، جس کے ذریعے وہ افغانستان میں اثر قائم رکھ کر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ صورت حال ایک اسٹریٹجک چیلنج بنتی جا رہی ہے، کیونکہ اسے کابل اور نئی دہلی کے بدلتے ہوئے تعلقات کے درمیان اپنے مفادات کا توازن قائم کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

Scroll to Top