وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ آزادکشمیر میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے جوحالات پید ا کررکھے ہیں سب جانتے ہیں کہ اس کے تانے بانے کہاں سے ملتے ہیں۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات کوگزشتہ روز بریفنگ میں عطاء اللہ تارڑ نے بتایا کہ آزادکشمیر میں انتشار کیلئے فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے سب جانتے ہیں۔گلگت بلتستان میں بھی ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں۔
وزارت اطلاعات ونشریات گلگت بلتستان میں بیانیہ بنانے کیلئے کام کرے گی،اس مقصد کیلئے ریڈیو پاکستان گلگت اور سکردو کیلئے جدید ٹرانسمٹرز کی اپگریڈیشن بھی آئندہ مالی سال کے منصوبے میں شامل ہوں گے۔
وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات نے بتایا کہ ڈیجیٹل سپیس کی وجہ سے چینلز کی سپیس بھی کم ہو گئی ہے،ہم نے میڈیا انڈسٹری کو سپورٹ کرنی ہے،میڈیا میں کنٹنٹ پر ایڈیٹوریل کنٹرول ہوتا ہے
انہوں نے کہا کہ پیکا ایکٹ کسی پرقدغن لگانے کیلئے نہیں بلکہ لوگوں کے تحفظ کیلئے ہے،اس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی سپیس بڑھیں گی،دنیا کے تمام ممالک میں یہ قانون موجود ہے،یہ قانون ہرگز کالا نہیں،نہ ہی کسی کو ٹارگٹ کرنے کیلئے ہے۔
یہ بھی پڑھیں:چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدرآمد نہ ہوا تو آ ئندہ الیکشن نہیں ہونے دیں گے،عوامی ایکشن کمیٹی کا اعلان
بلوچستان میں کیا بیانیہ چل رہا ہے یہ دیکھنا اہم ہے،یہ قاصر ہوں کی ایک خاتون ماہرنگ بلوچ اٹھتی ہیں،جلسے کرتی ہے،اتنے بڑے جلسے اور ریلیوں کیلئے فنڈنگ کون کر رہا ہے؟ماہرنگ بلوچ حکومتی سکالرشپ کے پیسوں پر ڈاکٹر بنی ہے،اب وہ نوجوانوں کو مس گائیڈ کر رہی ہے،حالانکہ بلوچستان کے حالات وہ نہیں جو ماہرنگ بلوچ پیش کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسائل کی ذمہ داری صرف ایک ادارہ پر ڈالنا درست نہیں،بلوچستان میں انتشار کیلئے فنڈنگ کہاں سے آتی ہے،ہم سب کو پتہ ہے،ہمیں نوجوانوں کو آگاہی دیکر درست راستے پر لانے ہونگے،ہمیں پتہ ہے کہ کون نہیں چاہتا پاکستان کا ترانہ نہ پڑھا جائے۔
عطاء اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ نوجوانوں میں یہ شعور بیدار کرنا ہو گا کہ صوبے فنڈز کتنا اور کہاں استعمال کررہے ہیں؟کیا صوبوں کی ذمہ داری نہیں کہ ٹیکس کے سو فیصد پیسے صوبوں میں لگے
وزارت اطلاعات ونشریات نے پاک چائنا سینٹر میں سٹیٹ آف دی آرٹ ڈیجیٹل سینٹر بنایا ہے،میڈیا یونیورسٹی بنانا سفید ہاتھی کے برابر ہےں،میڈیا یونیورسٹی کو حکومت بنا سکتی ہے اور نہ ہی چلا سکتی ہے۔