صدر ٹرمپ کا نیا یوکرین نقشہ، پیوٹن زیلنسکی ملاقات کے لیے تیار

(کشمیر ڈیجیٹل)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سے اہم ملاقات کے دوران یوکرین کا ایک ’’نیا نقشہ‘‘ پیش کیا، جس میں ملک کا تقریباً 20 فیصد حصہ روسی کنٹرول میں دکھایا گیا ہے۔ اس پیشکش کو مغربی دنیا میں ایک ممکنہ امن فارمولے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جس کا مقصد روس اور یوکرین کے درمیان طویل جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار کرنا ہے۔

اس ملاقات میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون، نیٹو کے نمائندے اور یورپی یونین کے اعلیٰ حکام بھی شریک تھے۔ ٹرمپ کی جانب سے پیش کیے گئے نقشے میں روسی افواج کے زیرِ قبضہ علاقوں کو نمایاں رنگ میں ظاہر کیا گیا تھا، جسے مبصرین نے زمینی حقائق تسلیم کرنے کی کوشش قرار دیا۔

روسی مطالبات اور یوکرینی مؤقف:

رپورٹس کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن امن معاہدے کے لیے ڈونباس کے مزید علاقوں کو روسی انتظام میں شامل کرنے پر زور دے رہے ہیں، تاہم یوکرین نے ایسے کسی معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بہرکیف حکومت کا مؤقف ہے کہ کسی بھی ڈیل سے قبل جنگ بندی ضروری ہے اور روس کو جنگی نقصانات کا ازالہ منجمد روسی اثاثوں سے کرنا ہوگا۔

یوکرینی صدر نے امریکا سے سیکیورٹی گارنٹی کے بدلے 100 ارب ڈالر کے اسلحے کی خریداری کی پیش کش بھی کی ہے، جس کے مالی وسائل یورپ فراہم کرے گا۔ اس معاہدے میں امریکا-یوکرین ڈرون منصوبہ بھی شامل ہے۔

سہ فریقی ملاقات کی تیاری:

صدر ٹرمپ نے روسی صدر پیوٹن سے ٹیلی فون پر 40 منٹ طویل گفتگو کی، جسے دونوں فریقین نے تعمیری قرار دیا۔ پیوٹن نے عندیہ دیا کہ وہ صدر زیلنسکی سے براہِ راست ملاقات کے لیے تیار ہیں۔ فرانسیسی صدر میکرون نے زور دیا ہے کہ مجوزہ سہ فریقی ملاقات میں یورپی یونین کی نمائندگی بھی شامل ہونی چاہیے۔

ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر حالات سازگار رہے تو اگست کے اختتام تک زیلنسکی اور پیوٹن کے ساتھ سہ فریقی سربراہی اجلاس منعقد کیا جائے گا، جس کے مقام کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

مستقبل کی سمت:

صدر زیلنسکی نے اس پیش رفت کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگرچہ امن تک کا سفر ابھی طویل ہے، لیکن حالیہ بات چیت سے نئی راہیں کھلی ہیں۔ انہوں نے جنگی قیدیوں کے تبادلے کو جنگ بندی کی شرط قرار دیا۔تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کا ’’نیا نقشہ‘‘ پیش کرنا محض علامتی اقدام نہیں، بلکہ ایک ایسے ممکنہ حل کی جھلک ہے جس سے مشرقی یورپ اور عالمی امن میں نئی پیش رفت ممکن ہو سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قدرتی مشروبات: گرمی سے نجات اور صحت کا تحفظ

Scroll to Top