(کشمیر ڈیجیٹل)ہیروشیما پر ایٹمی حملے کو 80 سال مکمل ہونے پر بدھ کی صبح جاپان میں خاموش دعائیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں جاپانی وزیرِاعظم شیگرو ایشیبا سمیت دنیا بھر کے نمائندے شریک ہوئے۔
ہیروشیما کے پیس میموریل پارک میں منعقدہ اس یادگاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میئر کازومی ماتسوی نے کہا کہ جاپان واحد ملک ہے جس نے جنگ کے دوران ایٹمی حملے کا سامنا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جاپانی قوم ہمیشہ سے پائیدار اور حقیقی امن کی خواہاں رہی ہے۔
تاریخی سیاق و سباق:
ہیروشیما پر ایٹمی حملہ 6 اگست 1945 کو صبح 8 بج کر 15 منٹ پر کیا گیا، جب امریکہ نے “لِٹل بوائے” نامی ایٹم بم گرایا۔ اس بم نے شہر کو لمحوں میں ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ تین دن بعد، 9 اگست کو ناگاساکی پر “فیٹ مین” نامی دوسرا ایٹم بم گرایا گیا۔ یہ دونوں حملے انسانی تاریخ کے پہلے اور اب تک واحد ایٹمی حملے ہیں۔
ہیروشیما میں اندازاً 1,40,000 اور ناگاساکی میں تقریباً 74,000 افراد ہلاک ہوئے۔ ان حملوں کے بعد جاپان نے 15 اگست 1945 کو غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے، جس کے ساتھ ہی دوسری جنگِ عظیم کا باضابطہ اختتام ہوا۔ آج بھی یہ دونوں شہر ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف عالمی ضمیر کی علامت بنے ہوئے ہیں۔
2024 میں جاپان میں ایٹمی حملوں سے بچ جانے والوں کی تنظیم ’’نِیہون ہیدانکیو‘‘ کو ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کی کوششوں پر نوبیل امن انعام دیا گیا۔ اسی تناظر میں میئر ماتسوی نے موجودہ عالمی حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں عسکری طاقت میں اضافے کا رجحان بڑھ رہا ہے، اور کئی ممالک ایٹمی ہتھیاروں کو قومی سلامتی کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ رویہ تاریخ کے المناک اسباق کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔
میئر کا کہنا تھا کہ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) کی افادیت خطرے میں ہے اور جاپانی حکومت کو چاہیے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں پر مکمل پابندی سے متعلق معاہدے کی توثیق کرے، جو 2021 میں نافذ ہو چکا ہے اور جسے 70 سے زائد ممالک پہلے ہی منظور کر چکے ہیں۔ تاہم امریکہ، روس اور دیگر ایٹمی طاقتیں اس معاہدے کی مخالفت کر رہی ہیں۔ جاپان نے بھی اس پر دستخط نہیں کیے، اور اس کا مؤقف ہے کہ امریکی ایٹمی ہتھیار جاپان کی سلامتی کو تقویت دیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آزاد کشمیر میں بارشوں کا سلسلہ جاری، اسلام آباد میں سڑکیں زیرِ آب
ہیروشیما کی سڑکوں پر اس موقع پر ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے حق میں چھوٹے مظاہرے بھی کیے گئے۔ مظاہرین نے عالمی قیادت سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلحے کی دوڑ کو ختم کرکے عالمی امن کو ترجیح دیں۔