مظفرآباد (کشمیر ڈیجیٹل)ٹک ٹاکر پولیس کانسٹیبل لائبہ قریشی کی وڈیو منظر عام پر آنے کے بعد محکمہ پولیس نے سخت قدم اٹھاتے ہوئے پولیس ملازمین پر ٹک ٹاک سمیت تمام سوشل میڈیا ایپس کے استعمال پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔
یہ فیصلہ مظفرآباد کی خاتون پولیس کانسٹیبل کی جانب سے دائر کی گئی شکایت کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں الزام عائد کیا گیا کہ دورانِ ٹریننگ اس کی ایک ویڈیو اس کی اجازت کے بغیر بنائی گئی اور بعد ازاں ٹک ٹاک اور اسنیپ چیٹ پر اپ لوڈ کی گئی۔
درخواست میں متاثرہ اہلکار نے مؤقف اختیار کیا کہ اس ویڈیو پر نازیبا تبصرے کیے گئے جس سے اس کی عزتِ نفس مجروح ہوئی اور اسے ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم اس سنگین نوعیت کے واقعے پر سائبر کرائم یا پاکستان الیکٹرانک کرائم ایکٹ (PECA) کے تحت کوئی باقاعدہ مقدمہ درج نہیں کیا گیا بلکہ صرف محکمانہ سطح پر سوشل میڈیا کے استعمال پر ضابطہ اخلاق کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔
ایس ایس پی مظفرآباد کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں واضح کیا گیا ہے کہ آئندہ کوئی پولیس اہلکار ٹک ٹاک، اسنیپ چیٹ، انسٹاگرام یا کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ویڈیوز، تصاویر یا ذاتی مواد اپلوڈ نہیں کرے گا، اور خلاف ورزی کی صورت میں سخت محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ یہ پابندی 19 ستمبر 2024 سے نافذ العمل ہو گی۔
ادھر عوامی حلقوں نے اس اقدام کو پولیس فورس کے نظم و ضبط اور ادارے کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے درست قدم قرار دیا ہے، مگر یہ سوال بھی اُٹھایا جا رہا ہے کہ اگر واقعی کسی اہلکار نے قانون کی خلاف ورزی کی تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہ کی گئی؟ سوشل میڈیا پر صرف پابندی عائد کر دینا کیا اس مسئلے کا حل ہے؟
بعض حلقے اس معاملے میں مبینہ جانبداری کے الزامات بھی لگا رہے ہیں، جن کے مطابق ٹک ٹاکر لیڈی کانسٹیبل ایک سینئر افسر کی منظور نظر ہے، جس کی وجہ سے اس کے خلاف قانونی کارروائی سے گریز کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ہم نکلیں گے تو سفیر کشمیر عمران خان نکلے گا،باغ میں تحریک انصاف کا پرجوش اجلاس
واضح رہے کہ دارالحکومت مظفرآباد میں وزیرِاعظم سیکریٹریٹ جنسی اسکینڈل کے بعد یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے جس نے نہ صرف ادارے کی ساکھ کو متاثر کیا بلکہ سرکاری اہلکاروں کی اخلاقی حدود پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر اندرونی نظم و ضبط کو مؤثر نہ بنایا گیا اور قانون پر یکساں عملدرآمد یقینی نہ بنایا گیا، تو اس نوعیت کے اسکینڈلز پولیس ادارے کو مزید بدنامی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔