آزاد کشمیر :گھریلو بجلی صارفین کے ذمے 17 ارب سے زائدبلز واجب الادا، حکومت تاحال وصولی سے محروم

مظفرآباد(ذوالفقار علی،کشمیر انوسٹی گیشن ٹیم )محکمہ برقیات آزاد کشمیر کی دستاویزات کے مطابق، 31 مارچ 2025 تک خطے میں گھریلو صارفین کے ذمے بجلی کے بلوں کی مد میں 17 ارب 5 کروڑ 69 لاکھ 24 ہزار روپے بقایاجات واجب الادا ہیں۔

دستاویز کے مطابق، 30 جون 2024 تک گھریلو صارفین کے ذمے 15 ارب 89 کروڑ 70 لاکھ 83 ہزار روپے بقایاجات تھے، اور مالی سال 2024-2025 کے پہلے نو ماہ میں یعنی 31 مارچ 2025 تک بقایاجات بڑھ کر 17 ارب 5 کروڑ 69 لاکھ 24 ہزار ہوگئے، یعنی بقایاجات میں ایک ارب 15 کروڑ 98 لاکھ 41 ہزار روپے کا اضافہ ہوا۔

ان بقایاجات کی اہم وجہ یہ ہے کہ جولائی اور اگست 2023 میں پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے بعد، آزاد کشمیر کی حکومت نے بھی اگست 2023 میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔

یہ اضافہ اس کے باوجود کیا گیا کہ پاکستان کی حکومت آزاد کشمیر کو صرف 2 روپے 59 پیسے فی یونٹ بجلی فراہم کرتی ہے تاہم مقامی لوگوں کی جانب سے غم و غصے کے باعث آزاد کشمیر کی حکومت نے 15 ستمبر کو بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ واپس لے لیا اور جولائی 2023 کی قیمتیں بحال کر دیں۔

اگرچہ یہ فیصلہ واپس لینے کے بعد بھی آزاد کشمیر کی حکومت پاکستان سے سستی بجلی خرید کر مقامی لوگوں کو مہنگے داموں بجلی فراہم کر رہی تھی۔

اس صورتِ حال کے باعث آزاد کشمیر میں بجلی کے بلوں کی ادائیگی کے خلاف بائیکاٹ مہم شروع کی گئی۔ اس مہم کا آغازپیپلز ایکشن کمیٹی نے 20 ستمبر 2023 کو مظفرآباد سے کیا

جو بعد میں آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں تک پھیل گئی۔ بجلی کے بل ادا نہ کرنے کی یہ مہم کافی حد تک کامیاب رہی، تاہم کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ہر ماہ باقاعدگی سے بل ادا کرتے رہے۔

اسی دوران، آزاد کشمیر میں جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے مئی 2024 میں آٹے کی سبسڈی بڑھانے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کیلئے پُرتشدد احتجاج کیا

جس کے نتیجے میں ایک پولیس افسر اور تین عام شہری مارے گئے، جب کہ تقریباً تین سو پولیس اہلکار اور کئی عام شہری زخمی ہوئے۔

چار روز تک جاری رہنے والا یہ احتجاج اُس وقت ختم ہوا جب پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف نے مداخلت کرکے آٹے کی سبسڈی بڑھائی، اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کی۔

بجلی کے نرخ کم کرنے کی وجہ سے، پاکستان کی حکومت نے مالی سال 2024-2025 میں 108 ارب روپے کی سبسڈی دی، جب کہ رواں مالی سال کے لیے حکومتِ پاکستان نے سبسڈی کے لیے 74 ارب روپے مختص کئے۔

بجلی کے نئے نرخ جولائی 2024 سے لاگو کیے گئے۔ آزاد کشمیر کی حکومت اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان یہ بھی طے پایا کہ آزاد کشمیر میں بجلی کے صارفین 12 اقساط میں اپنے بقایاجات ادا کریں گے

لیکن حکومت کو بقایاجات وصول کرنے میں مشکلات درپیش یہ ایک اہم وجہ ہے کہ گھریلو صارفین کے ذمے جون 2024 تک 15 ارب 89 کروڑ 70 لاکھ 83 ہزار روپے بقایاجات ہیں۔

دوسری طرف، کمرشل صارفین کے بقایاجات کی صورتحال بھی تشویشناک ہے۔ دستاویزات کے مطابق مارچ 2025 تک ان کے ذمے 4 ارب 63 کروڑ 29 لاکھ 89 ہزار روپے بقایاجات تھے ہیں جبکہ جون 2024 تک ان کے ذمے 4 ارب 2 کروڑ 43 لاکھ 70 ہزار روپے تھے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ مالی سال 2024-25 کے پہلے نو ماہ میں انکے بقایاجات میں 60 کروڑ 86 لاکھ 19 ہزار روپے کا اضافہ ہوا۔

اسی طرح، دستاویزات کے مطابق صنعت کے شعبے میں مارچ 2025 تک بجلی کے بلوں کی مد میں 1 ارب 33 کروڑ 89 لاکھ 86 ہزار روپے بقایاجات تھے، جو جون 2024 تک 1 ارب 12 کروڑ 50 لاکھ 40 ہزار روپے تھے۔

اس کا مطلب ہے کہ مالی سال 2024-2025 کے پہلے نو ماہ میں ان کے بقایاجات میں 21 کروڑ 39 لاکھ 46 ہزار روپے کا اضافہ ہوا۔

لیکن سب سے زیادہ بقایاجات آزاد کشمیر کی حکومت کے ذمے ہیں۔ دستاویزات کے مطابق مارچ 2025 تک آزاد کشمیر کی حکومت کے ذمے 33 ارب 85 کروڑ 13 لاکھ 92 ہزار روپے بقایاجات تھے، جبکہ جون 2024 تک حکومت کے ذمے 28 ارب 66 کروڑ 9 لاکھ 33 ہزار روپے تھے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ مالی سال 2024-2025 کے پہلے نو ماہ میں اس بقایاجات میں 5 ارب 90 کروڑ 4 لاکھ 9 ہزار روپے کا اضافہ ہوا۔

اس طرح نہ صرف حکومت کے ذمے سب سے زیادہ بقایاجات ہیں بلکہ مالی سال کے پہلے نو ماہ میں بھی سب سے زیادہ بقایاجات میں اضافہ ہوا ہے۔

آزاد کشمیر کے نیم سرکاری اداروں کے ذمے 31 مارچ 2025 تک 3 ارب 37 کروڑ 24 لاکھ 68 ہزار روپے بقایاجات تھے، جبکہ جون 2024 تک یہ بقایاجات 3 ارب 5 کروڑ 1 لاکھ 39 ہزار روپے تھے، یعنی مالی سال 2024-2025 کے پہلے نو ماہ میں بقایاجات میں 32 کروڑ 23 لاکھ 29 ہزار روپے کا اضافہ ہوا۔

آزاد کشمیر میں گھریلو صارفین، کمرشل صارفین، صنعتی شعبے کے صارفین، حکومت اور نیم سرکاری اداروں کے ذمے 31 مارچ 2025 تک مجموعی طور پر 60 ارب 25 کروڑ 27 لاکھ 59 ہزار روپے بقایاجات تھے، جن میں جون 2025 تک مزید اضافہ ہوا ہوگا۔

اس خطے میں حکومت نہ صرف بجلی فراہم کرتی ہے بلکہ بجلی کے بل بھی خود ہی جمع کرتی ہے۔ اس لیے بجلی کے بلوں کے بقایاجات کا بڑھنا براہِ راست آزاد کشمیر کی حکومت کی مالی مشکلات میں اضافہ کرتا ہے۔

یہ خطہ ایسا ہے جہاں خود حکومت بھی بجلی کے بل ادا نہیں کر رہی، جس کی وجہ سے عام صارفین کو بھی ادائیگی کی ترغیب نہیں ملتی۔ اگرچہ چند ماہ پہلے آزاد کشمیر کے وزیراعظم نے اپنے ایک خطاب میں کہا تھا کہ پہلے وزیراعظم، وزرا اور اعلیٰ سرکاری عہدیدار بجلی کے بل ادا کریں گے، اور اس کے بعد عام صارف سے بل وصول کیا جائے گا،

لیکن سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری ادارے اور محکمے اب بھی بجلی کے بل ادا نہیں کر رہے۔یہ صورتحال نہ صرف بدانتظامی اور بری حکمرانی کو ظاہر کرتی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں عوام کا حکومت پر اعتماد تقریباً ختم ہو چکا ہے۔

محکمہ شاہرات کی نااہلی، یونین کونسل لانگلہ کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار، عوام کا حکومت کو الٹی میٹم

Scroll to Top