انوار حکومت کو جھٹکا،990کلومیٹر سڑکوں کے منصوبوں پر ہائیکورٹ سے حکم امتناع جاری

مظفرآباد: آزادجموں و کشمیر ہائی کورٹ نے وزیراعظم انوارالحق کی زیر قیادت حکومت کی جانب سے منظور کئے گئے 990 کلومیٹر طویل سڑکوں کی تعمیر کے منصوبوں، ان کیلئے جاری کردہ اخباری اشتہارات اور ٹینڈرز پر عبوری طور پر حکمِ امتناعی (Stay Order) جاری کرتے ہوئے ان تمام منصوبوںکو فوری طور پر روکنے کا حکم دیدیاہے۔

یہ عبوری حکم عدالت عالیہ کے معزز جج جسٹس شاہد بہار نے معروف کنٹریکٹر جمیل عالم اور دیگر کی جانب سے دائر کی گئی آئینی درخواست پر ابتدائی سماعت کے بعد جاری کیا۔

درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا کہ موجودہ حکومت نے ترقیاتی فنڈز کی تقسیم میں شدید بے ضابطگیاں، سیاسی اقربا پروری اور قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف پیپرا رولز کو پامال کیا بلکہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ (P&D) اور پاکستان پلاننگ کمیشن کی گائیڈ لائنز کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سائلین کے ساتھ نامناسب سلوک : چیف جسٹس ہائیکورٹ آزاد کشمیر کا بڑا حکم

حکومتی عمل سے نہ صرف آزادکشمیر کے مالیاتی نظم و نسق پر سوالات اٹھے بلکہ ترقیاتی عمل بھی شدید متنازعہ ہو گیاہے۔

درخواست گزاروں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حکومت نے تمام 33 حلقوں کیلئے مجموعی طور پر 16 ارب روپے مالیت کے سڑکوں کے منصوبے منظور کئے جس کے تحت ہر رکن اسمبلی کو 20 کلومیٹر نئی سڑکیں اور 10 کلومیٹرری کنڈیشنگ روڈ زفراہم کی گئی، جس کی فی کلومیٹر لاگت بالترتیب 2 کروڑ 60 لاکھ اور 1 کروڑ 60 لاکھ روپے ہے۔

ان اسکیموں میں عام سڑکوں کے ساتھ ساتھ اسپیشل پراجیکٹس کے تحت پلوں اور دیگر شاہرات کی تعمیر بھی شامل کی گئی، تاہم جولائی 2025 میں محکمہ شاہرات کو دی گئی ابتدائی 30 کروڑ روپے کی رقم میں سے 17 کروڑ صرف ضلع بھمبر پر خرچ کئے گئے جبکہ باقی پورے آزادکشمیر کیلئے محض 13 کروڑ روپے جاری کئے گئےجو حکومت کی مالیاتی ترجیحات پر واضح سوالیہ نشان ہے ۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ،معلمین قرآن کی ہائیکورٹ فیصلہ کیخلاف اپیل سماعت کیلئے منظور

عدالت العالیہ نے ابتدائی سماعت کے بعد تمام متعلقہ محکموں بشمول محکمہ شاہرات، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور فنانس کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت تک حکم امتناعی جاری کردیا ہے اور مزید کارروائی کیلئے تفصیلی جوابات طلب کئے ہیں۔

اس عدالتی اقدام کو آزادکشمیر کی حالیہ ترقیاتی پالیسی میں ایک اہم قانونی مداخلت تصور کیا جا رہا ہے جو نہ صرف مالیاتی شفافیت کے اصولوں کی بحالی کی جانب ایک قدم ہے بلکہ موجودہ حکومت کی ساکھ اور طرزِ حکمرانی پر بھی براہِ راست اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

Scroll to Top