(کشمیر ڈیجیٹل) لندن جانے والی ایئر انڈیا کی پرواز کی تباہی کی ابتدائی تحقیقات میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں، جن کے مطابق حادثے کی وجہ مبینہ طور پر طیارے کے سینئر پائلٹ کی غفلت بنی۔
رواں برس جون میں احمد آباد سے اڑان بھرتے ہی گر کر تباہ ہونے والے اس بوئنگ ڈریم لائنر طیارے میں 260 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے، جن میں سابق وزیراعلیٰ گجرات وجے روپانی بھی شامل تھے۔
امریکی میڈیا کے مطابق بلیک باکس کی ریکارڈنگز سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی روشنی میں یہ دعویٰ سامنے آیا ہے کہ طیارے کے کپتان، 56 سالہ سُومیت صبروال، نے پرواز کے دوران وہ سوئچز بند کر دیے تھے جو انجنوں کو ایندھن فراہم کرتے ہیں۔ یہ اقدام نہ صرف غیر معمولی تھا بلکہ جان لیوا بھی ثابت ہوا۔
بلیک باکس گفتگو کے مطابق فرسٹ آفیسر کلائیو کندر نے کپتان سے فوری طور پر سوال کیا کہ وہ سوئچز کٹ آف پوزیشن پر کیوں لے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کپتان صبروال نے یہ سن کر بھی پُرسکون انداز اختیار کیے رکھا، حالانکہ فرسٹ آفیسر شدید خوفزدہ ہو چکا تھا۔ فرسٹ آفیسر کلائیو کا کل فلائنگ تجربہ صرف 3 ہزار 403 گھنٹے تھا، جبکہ کپتان صبروال کے پاس 15 ہزار سے زائد گھنٹے کا تجربہ موجود تھا، جن میں سے زیادہ تر بوئنگ طیارے اڑانے کے تھے۔
بھارتی حکام کی جانب سے گزشتہ ہفتے جاری کردہ ابتدائی رپورٹ میں دونوں پائلٹس کے درمیان رابطے کے فقدان کا ذکر کیا گیا تھا، مگر کسی کو براہِ راست ذمہ دار قرار نہیں دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ایک پائلٹ نے سوئچز کے کٹ آف ہونے پر سوال کیا تھا، جس پر دوسرے نے جواب دیا تھا کہ اُس نے ایندھن بند نہیں کیا۔
حادثے کے حوالے سے تاحال بوئنگ کمپنی، ایئر انڈیا، اور بھارت کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کا کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
یاد رہے کہ یہ سانحہ 12 جون کو اُس وقت پیش آیا جب پرواز AI-117 نے احمد آباد سے لندن کیلئے روانگی اختیار کی اور چند لمحوں بعد زمین سے ٹکرا کر تباہ ہو گئی۔ طیارے میں موجود 242 میں سے 241 مسافر موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے، جن میں 53 برطانوی شہری بھی شامل تھے۔ صرف ایک برٹش انڈین مسافر، جو کہ نشست 11-اے پر بیٹھا تھا، زندہ بچ پایا۔
اس افسوسناک حادثے کے نتیجے میں طیارے کے ایک میڈیکل کالج کی عمارت پر گرنے کے باعث مزید 19 افراد کی جانیں بھی چلی گئیں۔
کپتان سُومیت صبروال نے 1994 میں ایئر انڈیا میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ لائن ٹریننگ کیپٹن کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے، یعنی وہ دورانِ پرواز جونیئر پائلٹس کی تربیت بھی کرتے تھے۔ اُن کی ریٹائرمنٹ میں چند ہی ماہ باقی تھے۔ حادثے سے چند گھنٹے قبل انہوں نے اپنے والد سے فون پر کہا تھا، ’’لندن پہنچ کر فون کروں گا‘‘، مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
جونیئر پائلٹ، 32 سالہ کلائیو، جو بچپن سے ہی پائلٹ بننے کا خواب دیکھتا تھا، دو ماہ بعد اپنی شادی کی تیاری میں تھا۔ اس کے والدین بھی ایوی ایشن شعبے سے وابستہ تھے، جہاں والدہ ایئر ہوسٹس رہ چکی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آزاد کشمیر سمیت ملک کے بیشتر علاقوں میں موسلادھار بارشوں کا سلسلہ جاری، نشیبی علاقے زیر آب، انتظامیہ الرٹ
ایئر انڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ پرواز سے قبل دونوں پائلٹس کے طبی اور نشے سے متعلق تمام ٹیسٹ کلیئر تھے اور ان میں کسی بیماری یا جسمانی کمزوری کی علامات بھی ظاہر نہیں ہوئیں۔