پیپلزسٹوڈنٹس آرگنائزیشن

جموں وکشمیر پیپلزسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کاطلباء یونینز بحال ، تعلیمی نصاب ایک کرنے کامطالبہ

راولاکوٹ (کشمیر ڈیجیٹل)جموں کشمیر پیپلزسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کشمیر نے 19 جولائی 1947 کے حوالہ سے امسال اس دن کو انتہائی عقیدت و احترام سے منانے کا اعلان کرتے ہوئے اسلام آباد میں یو این او کے دفتر میں یاداشت جمع کروانے کا عزم کا اظہار

جموں وکشمیر پیپلزسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا طلبہ یونین سے پابندی ہٹاتے ہوئے اس کی بحالی، تعلیمی بورڈ میرپور کو ناکافی قرار دیتے ہوئے آزاد کشمیر میں ایک اور بورڈ کے قیام، پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیتے ہوئے نیشنلائز کرنے اور تعلیمی نصاب کو ایک کرنے کا مطالبہ کر دیا۔

مرکزی چیئرمین جموں کشمیر پیپلزسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کشمیر سردار عبیدارشد نے ہمراہ مرکزی سیکرٹری جنرل جے کے پی ایس او قاضی تصدق،اسد اشرف، ہارون رشید، سجاول خان، سفیر خان، بلال، اویس سلیم، عمر شیراز ، سردارنعمان سمیت غازی ملت پریس کلب (رجسٹر ڈ ) راولاکوٹ میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 19 جولائی 1947 کی قرار داد کا پس منظر سمجھنے کیلئے 19 جولائی کی قرارداد کے متن کا بغور جائزہ لینا ضروری ہے۔ ”

یہ اجلاس متفقہ طور پر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ریاست جموں کشمیر کی جغرافیائی حقیقت اس میں بسنے والی اسی فیصد مسلمان اکثریت کے مذہب ، ثقافت اور تہذیب و تمدن کے لازوال رشتوں کے علاوہ پنجاب کے دریاﺅں کی قدرتی گزرگاہوں کے فطری تقاضوں کے پیش نظر ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ کیا جانا چاہیے “ ۔

برصغیر میں 560 سے زائد شخصی ریاستیں تھی ۔ 1947 میں جب دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان معرض وجود میں آیا، حیدر آباد، جوناگڑھ، جموں کشمیر ان تین ریاستوں کا تنازع کھڑا ہوا۔ اس مسئلہ کے حل کیلئے آخری وائسرائے ہند لارڈ ماﺅنٹ بیٹن بھی حرکت میں آیا۔ 560 ریاستوں کے راجاﺅں، مہاراجاﺅں نے چیمبر آف پرنسز بنایا اور مہاراجہ پٹیالہ کو چیمبر آف پرنسز کا چانسلر بنایا یعنی مہاراجہ پٹیالہ نے وائسرائے کے ساتھ طے کیا کہ تمام ریاستوں کا الحاق ہندوستان کے ساتھ ہونا چاہیے یا پاکستان کے ساتھ۔ مسلم کانفرنس کی سی ای سی کی طرف ایک خودمختار کشمیر کی قرار داد بھی آئی جس میں مہاراجہ جموں کشمیر کو ریاست کا مطلق العنان حکمران تسلیم کرتے ہوئے کشمیر کی خودمختاری کی بات کی گئی جس کے بعد جو اب میں 19 جولائی 1947 کو غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ واقع آبی گزرگاہ سری نگر میں مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل نے قرار دالحاق پاکستان منظور کی۔

19 جولائی کی قرار داد الحاق پاکستان یا الحاق پاکستان کی اہمیت موجود ہ حالات میں اور آزاد کشمیر کے لئے پاکستان کا مستحکم ہونا کتنا ضروری ہے۔ 1971 میں جب پاکستان دولخت ہوا کمشزور ہوا، حکومت پاکستان کو حکومت ہندوستان کے ساتھ شملہ معاہدہ کرنا پڑا۔ شملہ معاہدہ میں ایک شق آئی کہ دوطرفہ معاملات کو گفت و شنید سے حل کیا جائے گا۔

اس لفظ دوطرفہ نے ہندوستان کو ایک جواز فراہم کیا اور ہندوستان نے پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ کشمیر بین الاقوامی مسئلہ نہیں بلکہ دوطرفہ مسئلہ ہے۔ یہاں سے بات ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان کمزور ہواتو تحریک آزاد کشمیر پر اس کا منفی اثر پڑا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں جب افواج پاکستان نے بنیان المرصوص آپریشن کیا جو لگ بھگ ایک گھنٹے پر محیط تھا ۔

اس آپریشن کے بعد تقریبا چھ دفعہ امریکن صدر نے مسئلہ کشمیر کو حل طلب مسئلہ قرار دیا یعنی سادہ الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی عسکری برتری کا مسئلہ کشمیر پر مثبت اثرا پڑا۔ اس طرح اگر آج پاکستان کمزور ہوتا ہے تو سب سے پہلے ہندوستان اکھنڈ بھارت کے فلسفہ کے مطابق اس سارے خطے پر قابض ہو جائے گا، تحریک آزاد کشمیر ختم ہو جائے گی کیوں کہ کشمیر کا وجود ہی ختم ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے کمزور ہونے کی صورت میں سی پی کے تمام راستوں ، علاقوںبشمول گلگت بلتستان پر چین بیٹھ جائے گا، کیوں کہ چین امریکہ کی ایماءپر ہندوستان کو ساﺅتھ ایشاءمیں کبھی بطور اجارہ دار تسلیم نہیں کرے گا اور چین سی پیک کے علاقوں پر بیٹھ گیا تو گلگت بلتستان بطور ریاست جموں کشمیر کی ایک اکائی ناقابل شناخت ہو کر رہ جائے گی ۔

اگر پاکستان کمزور ہوتا ہے تو بین الاقوامی دنیا اور اقوام متحدہ میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرنے والا کوئی ملک بچتا ہی نہیں ہے ۔ ایسی صورت میں مسئلہ کشمیر ختم بھی ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ یونین کو بحال کیا جائے کیوں کہ طلبہ یونین نہ ہونے کی وجہ سے نظریاتی آبیاری مکمل طور پر رک چکی ہے۔ اس وجہ سے جو خلا پیدا ہورہاہے اس سے جتھوں کو سیاست کرنے کا موقع مل رہا ہے۔

ریاست کے اندر جب ہر مکتبہ فکر کی یونین موجودہے مگر طلبہ یونین پر پابندی سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر طلبہ یونین کی بحالی عمل میں نہ لائی گئی تو ریاست گیر تحریک چلانے پر مجبور ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ میرپور تعلیمی بورڈ آزاد کشمیر میں اس وقت ناکافی ہے

ضرورت اس امر کی ہیکہ فوری طور پر ایک اور بورڈ کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ طلبہ کے استحصال کو روکتے ہوئے ان کے تحفظات کو بھی دور کیا جاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیتے ہوئے ایک ہی نصاب تشکیل دیاجائے جس سے قوم کو آگے بڑھنے کا موقع ملے۔

آزاد کشمیر : 11 سے 17 جولائی تک شدید بارشوں کا امکان، الرٹ جاری

Scroll to Top