بینک اسٹیٹمنٹ آمدن کا ثبوت نہیں، ایف بی آر کو سپریم کورٹ سے بڑا جھٹکا!

اسلام آباد :سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اہم اور تاریخی فیصلے میں قرار دیا ہے کہ بینک اسٹیٹمنٹس بذاتِ خود آمدن کا ثبوت نہیں ہیں اور ان کی بنیاد پر انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 122(5A) کے تحت ازسرنو اسیسمنٹ کی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔

یہ فیصلہ اُس مقدمے میں سنایا گیا جس میں ایف بی آر نے صرف ٹیکس دہندہ کے بینک اکاؤنٹ میں موجود کریڈٹ انٹریز کو بنیاد بناتے ہوئے کارروائی شروع کی تھی۔ ایف بی آر کا مؤقف تھا کہ یہ “Undisclosed Income” ہے، اس لیے نوٹس جاری کیا گیا۔

تاہم ٹیکس دہندہ نے مؤقف اختیار کیا کہ بینک اسٹیٹمنٹس محض لین دین کا ریکارڈ ہوتی ہیں اور ان سے براہ راست یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ آمدن ہے یا کسی مخصوص ٹیکس ایئر سے متعلق ہے۔ اس مؤقف کو ماتحت عدالت نے تسلیم کیا، جسے ہائی کورٹ اور بعد ازاں سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔

عدالتی فیصلے کے اہم نکات:

  • بینک اسٹیٹمنٹس خود “Definite Information” نہیں ہیں۔
  • انکم ٹیکس کی کارروائی کے لیے معلومات کا آمدن سے براہِ راست اور واضح تعلق ہونا ضروری ہے۔
  • صرف قیاسی یا عمومی معلومات کی بنیاد پر سیکشن 122(5A) کے تحت کوئی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
  • سپریم کورٹ نے ایف بی آر کا مؤقف مسترد کرتے ہوئے ٹیکس دہندہ کو ریلیف دیا۔

عدالت نے واضح کیا کہ ایسی معلومات جو مخصوص، واضح اور قابلِ تصدیق نہ ہوں، ان کی بنیاد پر ٹیکس دہندہ کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی، اور محض شک یا قیاس پر اٹھائے گئے نوٹس قانون کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔

یہ بھی پڑھیں: گروک‘ پاکستانیوں کے نشانے پر: سیاست، طنز و مزاح اور سوالوں کی بوچھاڑ

Scroll to Top