واشنگٹن: ارب پتی ٹیکنالوجی ٹائیکون ایلون مسک نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت یافتہ متنازع بل پر شدید ردعمل دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ بل کانگریس سے منظور ہوا تو وہ اگلے ہی دن ’امریکا پارٹی‘ کے نام سے نئی سیاسی جماعت کا اعلان کر دیں گے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر متعدد پوسٹس میں مسک نے اس بل کو “پاگل خرچ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے قومی قرضے میں 5 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل دراصل ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کی “یونی پارٹی” کا ثبوت ہے اور وقت آ گیا ہے کہ عوام کے لیے ایک نئی جماعت قائم کی جائے۔
If this insane spending bill passes, the America Party will be formed the next day.
Our country needs an alternative to the Democrat-Republican uniparty so that the people actually have a VOICE.
— Elon Musk (@elonmusk) June 30, 2025
مسک نے کہا کہ اس بل کے پاگل خرچ سے یہ واضح ہے کہ ہم ایک جماعت کے ملک میں رہتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ایک نئی سیاسی جماعت بنائی جائے جو عوام کی پرواہ کرے۔
یہ ریمارکس ایک ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب سینیٹ 4 جولائی کی ڈیڈ لائن سے قبل اس بل کی منظوری کی کوششوں میں مصروف ہے، جس میں ٹیکس میں کٹوتیاں، بنیادی ڈھانچے کی سبسڈی اور دفاعی اخراجات میں اضافہ شامل ہے۔ اس بل نے صرف ڈیموکریٹس ہی نہیں بلکہ ریپبلکن پارٹی کے بڑے مالیاتی حامیوں کو بھی ناراض کر دیا ہے۔
ایلون مسک، جو کبھی ٹرمپ انتظامیہ کے قریبی سمجھے جاتے تھے، اب کھل کر سابق صدر کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کر رہے ہیں۔ ان کے اور ٹرمپ کے درمیان سوشل میڈیا پر جاری کشیدگی اس ہفتے اس وقت شدت اختیار کر گئی جب بل منظوری کے قریب پہنچا۔
مسک نے لکھا کہ اگر یہ پاگل اخراجات کا بل منظور ہو جاتا ہے تو اگلے دن امریکا پارٹی تشکیل دی جائے گی۔ ہمارے ملک کو ایک متبادل جماعت کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کے پاس واقعی ایک آواز ہو۔ انہوں نے ریپبلکن قانون سازوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں نے اس زمین پر کوئی آخری کام کیا تو یہ ہوگا کہ ریپبلکن قانون ساز اپنا بنیادی مینڈیٹ کھو دیں گے۔
وائٹ ہاؤس نے مسک کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ناراضی دراصل الیکٹرک گاڑیوں کے لیے سبسڈی ختم کرنے کے بل سے جڑی ہے، جو ٹیسلا کے لیے ایک اہم سہارا ہے۔
ایلون مسک، جو ماضی میں ٹرمپ انتظامیہ کے تحت ایک سرکاری مشاورتی ادارے کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں، واشنگٹن میں مالی بے ضابطگیوں پر پہلے بھی تحفظات ظاہر کرتے رہے ہیں۔ 5 جون کو بھی انہوں نے اپنے ایکس فالوورز سے نئی جماعت کے قیام کے بارے میں رائے طلب کی تھی۔
سیاسی ماہرین کے مطابق نئی جماعت کی دھمکی فوری طور پر عملی شکل اختیار نہ بھی کرے، تب بھی مسک کی جانب سے ریپبلکن اسٹیبلشمنٹ پر بڑھتی تنقید 2026 کے وسط مدتی انتخابات سے قبل قدامت پسند ووٹرز کو تقسیم کر سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی شاندار کارکردگی برقرار: ایشین یوتھ گرلز نیٹ بال چیمپئن شپ میں پانچویں مسلسل فتح
واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کی تجزیہ کار ڈینیئل میک برائیڈ کا کہنا ہے کہ مسک رائے دہندگان کے ایک مخصوص حصے، خاص طور پر نوجوان اور ٹیکنالوجی سے وابستہ قدامت پسندوں پر اثر رکھتے ہیں، اس لیے ان کی بات کو محض شور نہ سمجھا جائے بلکہ سنجیدگی سے لیا جائے۔