امیر جماعت اسلامی آزاد جموں و کشمیر و گلگت بلتستان، ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر کے لیے مختص 49 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ کو اگر 45 لاکھ آبادی پر تقسیم کیا جائے تو یہ فی شہری سالانہ صرف 108 روپے بنتے ہیں، جو کہ ایک مذاق ہے۔
کشمیر ڈیجیٹل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محض یہ سمجھ لینا کہ 108 روپے فی شہری خرچ کر کے اُن کے ترقیاتی مطالبات پورے کر دیے گئے، خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ جب تک ترقیاتی بجٹ کا حجم 200 ارب روپے تک نہیں پہنچتا، اُس وقت تک عوام کو اُن کے حقوق فراہم کرنا ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ گزشتہ سال کے ترقیاتی بجٹ 42 ارب کے مقابلے میں موجودہ بجٹ زیادہ ہے، لیکن جب اسے آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو یہ انتہائی مایوس کن ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ 77 برسوں میں ریاست میں اتنی صلاحیت پیدا ہو جانی چاہیے تھی کہ یہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاتی، کوئی ریاستی مشینری تیار کر لی جاتی، کیونکہ کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد بیرونِ ملک موجود ہے، لیکن بدقسمتی سے اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔
ڈاکٹر مشتاق نے کہا کہ کشمیری ڈائسپورا برطانیہ، یورپ اور امریکہ میں بڑی تعداد میں موجود ہے، جنہیں ریاستی ترقی میں شامل کر کے معاشی استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ سیاحت سے وابستہ کمپنیاں بھی اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں، اگر انہیں تنگ نہ کیا جائے اور سنجیدہ اقدامات کیے جائیں تو حالات یکسر بدل سکتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ بہتر حکمتِ عملی اپنا کر ترقیاتی بجٹ کو 200 ارب روپے تک لے جایا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دبئی میں ایئر ٹیکسی کی پہلی کامیاب پرواز، ولی عہد نے اسے “انقلابی قدم” قرار دیا
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس انسانی وسائل کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے، کالجز اور جامعات سے ہر سال ہزاروں نوجوان فارغ التحصیل ہو رہے ہیں، جنہیں ریاستی ترقی میں شامل کر کے نہ صرف آزاد کشمیر کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے بلکہ وہ ملکی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر میں پاور پولیٹکس کا ایک مکروہ دھندہ طویل عرصے سے جاری ہے اور ہر سیاسی رہنما اور کارکن کو جماعت بدلنے کا حق حاصل ہے۔