مظفر آباد(ذوالفقار علی /کشمیر انویسٹی گیشن ٹیم )آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ برائے مالی سال 2024-2025 میں انکشاف ہوا ہے کہ آزاد جموں و کشمیر کی حکومت نے مالی سال 2022-2023 کے دوران ضرورت سے کہیں زیادہ گندم خرید کر قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا۔
خطے کو کتنی گندم درکار تھی؟
رپورٹ کے مطابق حکومتِ آزاد کشمیر نے سال 2022-2023 میں پاسکو سے 3لاکھ 15ہزار 917ٹن گندم خریدی جب کہ خطے میں اتنی گندم کی قطعی ضرورت نہیں تھی۔
محکمہ خوراک کے مطابق آزاد کشمیر کی کل آبادی 43لاکھ 10ہزار ہےجس میں سے دو اعشاریہ پانچ فیصد یعنی تین لاکھ چھپن ہزار دو سو پچاس بچے ہیں۔
اس کے علاوہ تقریباً پندرہ لاکھ افراد بیرونِ ملک مقیم ہیں۔ یوں گندم استعمال کرنے والی آبادی کی مجموعی تعداد 24لاکھ 53ہزار 750بنتی ہے۔
عالمی معیار کے مطابق ایک شخص سالانہ اوسطاً 124کلوگرام گندم کا آٹا استعمال کرتا ہے۔ اس حساب سے سالانہ گندم کی مجموعی ضرورت 3لاکھ 4ہزار 265ٹن بنتی ہے۔
مقامی سطح پر سالانہ گندم کی پیداوار ایک لاکھ 54ہزار 754ٹن ہے۔ اس طرح حکومت کو صرف ایک لاکھ 49ہزار 511 ٹن گندم خریدنی چاہیے تھی لیکن اس کے برعکس حکومت نے 3لاکھ 15ہزار 917ٹن گندم خریدی، یعنی ایک لاکھ 66ہزار 406ٹن ضرورت سے زیادہ۔
خریداری پر کتنا خرچ آیا؟
پاسکو سے فی ٹن گندم کی قیمت 97ہزار روپے تھی۔ اس حساب سے تین لاکھ 15ہزار 917ٹن گندم کی قیمت 30ارب 64کروڑ 39لاکھ 49ہزار روپے بنی۔
زیادہ خریدی گئی ایک لاکھ 66ہزار 406ٹن گندم کی مالیت 16ارب 14کروڑ 13لاکھ 82ہزار روپے بنتی ہے۔
اس کے علاوہ حکومت نے پاسکو کو فی کلوگرام 6روپے 82پیسے انسڈینٹل چارجز ادا کئے جبکہ گندم اور آٹے کی ترسیل پر آٹھ روپے اڑتیس پیسے اور دو روپے انتالیس پیسے پسوائی کے مد میں ادا کئے۔ مجموعی طور پر یہ لاگت پانچ ارب چھپن کروڑ سات لاکھ اکہتر ہزار چونتیس روپے بنی۔
یوں تین لاکھ پندرہ ہزار نو سو سترہ ٹن گندم کی کل لاگت (قیمت خرید، نقل و حمل،انسٹی ڈنٹل چارجز ، پسوائی) 36ارب 20کروڑ 47لاکھ 20ہزار 34روپے رہی جبکہ صرف زیادہ خریدی گئی ایک لاکھ 66ہزار 406ٹن گندم پر 19ارب 7کروڑ 13لاکھ 82ہزار روپے کے اخراجات آئے۔
اصل نقصان کیسے ہوا؟
پسوائی کے دوران تقریباً 10فیصد چوکر نکلتا ہے، جس کے بعد حکومت نے 2لاکھ 84ہزار 325ٹن آٹا فروخت کیا۔
یہ آٹا چالیس کلوگرام کے تھیلے کی صورت میں تین ہزار ایک سو روپے فی تھیلا فروخت کیا گیا۔ یوں کل آمدنی 22ارب 3کروڑ 51لاکھ 87ہزار 500ہوئی۔
کل لاگت 36ارب 20کروڑ 47لاکھ 20ہزار 34روپے میں سے یہ آمدنی منہا کرنے کے بعد 14ارب 17کروڑ 65 لاکھ 32ہزار 534روپے کا نقصان ظاہر ہواجو کہ بطور سبسڈی ادا کیا گیا۔
اسی تناسب سے زائد خریدی گئی گندم یعنی ایک لاکھ 66ہزار 406ٹن پرسبسڈی تقریباً 7ارب 54کروڑ 88لاکھ اننانوے ہزار چار سو بہتر روپے بنی جس کا عوام کو نہ کوئی فائدہ پہنچا اور نہ کوئی جواز موجود ہے۔
اسمگلنگ اور رپورٹ کی خامیاں
رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ آٹے کا کچھ حصہ اسمگل بھی ہوتا ہے، تاہم اس کی کوئی تفصیل یا چھان بین فراہم نہیں کی گئی۔ یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ گندم کا کچھ حصہ پاسکو سے خریدتے ہی منافع خوروں کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں ایک اور بڑی کوتاہی یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں چاول، مکئی اور دیگر متبادل غذائی اجناس بھی عام طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔
اسی طرح ایک بڑی تعداد بازار سے براہِ راست آٹا خریدتی ہے جس کا مطلب ہے کہ سرکاری سطح پر گندم کی اصل ضرورت اس سے بھی کہیں کم تھی جتنی ظاہر کی گئی۔
یہ نقصان پہلی بار نہیں ہوا
یہ نقصان کسی ایک سال میں نہیں ہوا بلکہ ایک پرانی روایت بن چکا ہے۔ 2023-2024 اور 2024-2025 میں بھی نہ صرف یہی صورتِ حال برقرار رہی بلکہ صورت حال پہلے کے نسبت اور بگڑ گئی ہے کیوں کہ سبسڈی میں مزید اضافہ کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں اگرچہ ذمہ داران کا ذکر نہیں کیا گیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس منظم بدانتظامی اور مالی بے ضابطگی میں صرف چند افسران نہیں بلکہ بااثر سیاستدان، محکمے کے اہلکاراور فلور ملز مالکان بھی شامل ہیں جو سالوں سے اس نظام کو اپنے فائدے کیلئے چلا رہے ہیں۔
اربوں روپے کے اس نقصان کے باوجود تاحال کسی ایک فرد کا بھی احتساب نہیں ہو سکا۔