آبنائے ہرمز کی بندش : خلیجی تیل کی عالمی سپلائی شدیدمتاثر ہونے کا خدشہ

مشرق وسطیٰ کی اہم ترین بحری گذرگاہ آبنائے ہرمز کی ممکنہ بندش نے دنیا بھر میں توانائی کے بحران کا خدشہ پیدا کر دیا ہے۔ حالیہ کشیدگی کے بعد ایران نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کا عندیہ دیا ہے، جو دنیا میں تیل کی ترسیل کا سب سے اہم راستہ تصور کیا جاتا ہے۔

خلیج فارس اور خلیج عمان کے درمیان واقع آبنائے ہرمز، ایران اور عمان کی سرحد کے درمیان ایک نہایت حساس مقام پر موجود ہے، جو ایک جگہ صرف 33 کلومیٹر چوڑی ہے۔یہ دنیا کے ان چند گزرگاہوں میں شمار ہوتی ہے جو تیل اور گیس کی ترسیل کے لیے اسٹریٹیجک لحاظ سے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں۔یہ راستہ مشرق وسطیٰ کے تیل سے مالامال ممالک کو ایشیا، یورپ، شمالی امریکہ اور دیگر دنیا تک ایندھن برآمد کرنے کے لیے ناگزیر حیثیت رکھتا ہے۔ آبنائے ہرمز کے ذریعے روزانہ تقریباً دو کروڑ بیرل خام تیل گزر کر عالمی منڈیوں تک پہنچتا ہے۔ خلیجی ممالک جیسے سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت اور عراق اپنی تیل کی برآمدات اسی راستے سے یورپ، ایشیا اور دیگر خطوں تک بھیجتے ہیں۔

 

اوپر تصویر میں دکھائے گئے ممالک جن میں ایران، سعودی عرب، قطر، بحرین، متحدہ عرب امارات، عمان، اور دیگر شامل ہیں ، خلیج فارس کے کنارے واقع ہیں اور ان کا تیل کا انحصار اسی بحری راستے پر ہے۔ اگر یہ راستہ بند ہو جاتا ہے تو پاکستان، بھارت اور ایشیا کے دیگر ممالک کی توانائی کی ضروریات براہ راست متاثر ہو سکتی ہیں۔

تاہم اس کا سب سے بڑا اثر ان ممالک پر ہو گا جو اس تصویر میں دکھائی نہیں دے رہے یعنی یورپ، شمالی امریکا، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک جو خلیجی ریاستوں سے بڑی مقدار میں تیل درآمد کرتے ہیں۔ تیل کی سپلائی میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ نہ صرف قیمتوں میں اضافہ کرے گی بلکہ عالمی منڈی میں افراط زر اور توانائی کے بحران کو بھی جنم دے سکتی ہے۔

بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر آبنائے ہرمز بند ہوئی تو یہ اقدام عالمی توانائی کی مارکیٹ کو ہلا کر رکھ دے گاکیونکہ دنیا کے تقریباً 30 فیصد تیل کی سپلائی اسی راستے سے گزرتی ہے۔

Scroll to Top