امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے تاہم حتمی حکم تاحال جاری نہیں کیا گیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ ایران کو جوہری پروگرام ترک کرنے کا موقع دینا چاہتے ہیں۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے بدھ کو اپنی رپورٹ میں تین باخبر ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے منگل کی رات سینئر مشیروں کو ایران پر حملے کے منصوبے کی منظوری سے آگاہ کیا۔ تاہم انہوں نے فوری طور پر حملے کا حتمی حکم جاری نہیں کیا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ آیا ایران اپنا جوہری پروگرام ختم کرتا ہے یا نہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ جس جوہری تنصیب کو نشانہ بنانے پر غور کر رہا ہےوہ ایران کے شہر قم میں واقع “فردو” یورینیم افزودگی مرکز ہے، جو ایک پہاڑ کے اندر قائم ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق یہ تنصیب صرف انتہائی طاقتور بم سے ہی تباہ کی جا سکتی ہے۔ بدھ کو جب صدر ٹرمپ سے ایران کی جوہری تنصیبات پر ممکنہ حملے کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا:”ابھی کچھ طے نہیں ہوا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ ہم حملہ کر سکتے ہیں یا نہیں بھی کر سکتے۔”
صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ ایران کو 60 دن دیے گئے تھے اور کئی بار جوہری معاہدے میں واپسی کا کہا گیا۔انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا: “پہلے دور میں بھی واضح کیا تھا کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں۔” قومی سلامتی ٹیم کے ساتھ ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران کے ساتھ اب بھی معاہدہ ممکن ہے اور مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے گئے۔انہوں نے کہا:”کوئی نہیں جانتا کہ میں کیا کرنے جا رہا ہوں۔ اگلا ہفتہ اہم ہے۔”
انہوں نے ایران سے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا:”غیر مشروط سرنڈر کا مطلب یہ ہے کہ ایران کہے ‘بس بہت ہوگیا، ہم ہار مانتے ہیں’۔ اس کے بعد ہم جائیں گے اور تمام جوہری سامان تباہ کر دیں گے۔”
یہ بھی پڑھیں: مدد کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی،ایران-اسرائیل کشیدگی پر پوتن کا محتاط مؤقف
دوسری جانب ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے صدر ٹرمپ کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران ہتھیار نہیں ڈالے گا۔
اپنے خطاب میں انہوں نے خبردار کیا کہ کسی بھی امریکی فوجی مداخلت کے ناقابلِ تلافی نتائج ہوں گے۔