ایران نے ایک بار پھر سوشل میڈیا پر سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ فوراً اپنے موبائل فونز سے واٹس ایپ اور انسٹاگرام ڈیلیٹ کر دیں۔ ایرانی سرکاری ٹی وی کی جانب سے اس اپیل کی وجہ ان ایپس پر سنگین الزامات ہیں جنہیں واٹس ایپ نے سختی سے مسترد کیا ہے۔
منگل کی دوپہر ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن نے عوام سے مطالبہ کیا کہ وہ واٹس ایپ کو فوری طور پر ڈیلیٹ کر دیں۔ دعویٰ کیا گیا کہ یہ ایپ صارفین کی معلومات اسرائیل کو منتقل کر رہی ہے۔ تاہم، اس الزام کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
واٹس ایپ کا ردعمل:
واٹس ایپ نے ان الزامات کو ’غلط اور بے بنیاد‘ قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ان کے پیغامات اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن کے ذریعے مکمل طور پر محفوظ ہوتے ہیں۔ کمپنی نے خدشہ ظاہر کیا کہ جھوٹے الزامات اس کی سروس پر پابندی لگانے کا بہانہ بن سکتے ہیں، حالانکہ عوام کو اس وقت اس ایپ کی اشد ضرورت ہے۔
واٹس ایپ کی وضاحت:
صارفین کا ڈیٹا حکومتوں کو فراہم نہیں کیا جاتاہے اورپیغامات صرف بھیجنے اور وصول کرنے والے ہی پڑھ سکتے ہیں، اس کے علاوہ کمپنی صارفین کی لوکیشن یا بات چیت کی تفصیل ریکارڈ نہیں کرتی اورمیسجز درمیان میں کسی بھی ادارے کے لیے ناقابلِ فہم ہوتے ہیں۔
ماہرین کی رائے:
کارنیل یونیورسٹی کے سائبر سیکیورٹی ماہر گریگری فالکو نے کہا کہ اگرچہ واٹس ایپ کے پیغامات انکرپٹ ہوتے ہیں، مگر کچھ میٹا ڈیٹا جیسا کہ ایپ کے استعمال کا وقت، رابطہ کرنے والے نمبرز اور پیغامات کی نوعیت (بھیجے جا رہے ہیں یا وصول ہو رہے ہیں) محفوظ ہو سکتا ہے، جو واٹس ایپ کے محفوظ نظام پر سوالیہ نشان بن سکتا ہے۔
ڈیٹا کی لوکیشن پر تحفظات:
ماہرین کے مطابق ایک اور اہم تشویش یہ ہے کہ واٹس ایپ صارفین کا ڈیٹا ان کے اپنے ملک میں نہیں بلکہ کسی دوسرے ملک میں محفوظ ہوتا ہے۔ ایرانی حکومت کو اسی پہلو پر اعتراض ہے اور وہ چاہتی ہے کہ ڈیٹا ایران کے اندر محفوظ اور پروسیس ہو تاکہ قومی خودمختاری برقرار رہے۔
ایران میں ماضی کی پابندیاں:
یہ پہلا موقع نہیں جب ایران نے سوشل میڈیا پر قدغن لگائی ہو۔ 2022 میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران واٹس ایپ اور گوگل پلے سمیت متعدد پلیٹ فارمز پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں جو بعد ازاں ہٹا لی گئیں۔ تاہم واٹس ایپ آج بھی ایران میں انسٹاگرام اور ٹیلیگرام کے بعد سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ایپ شمار ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران میں پھنسے 107 پاکستانی خصوصی پرواز سے اسلام آباد پہنچ گئے
ایران کی جانب سے واٹس ایپ اور انسٹاگرام پر پابندی کا یہ نیا مطالبہ صرف تکنیکی یا سیکیورٹی خدشات کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک وسیع تر حکومتی پالیسی کا حصہ معلوم ہوتا ہے جس کا مقصد معلومات کے بہاؤ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ واٹس ایپ نے اگرچہ ان الزامات کی تردید کی ہے مگر ایرانی حکام کی یہ اپیل خطے میں ڈیجیٹل آزادی اور رازداری کے مستقبل پر نئے سوالات کھڑے کر رہی ہے۔