مظفرآباد:آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے قانون ساز اسمبلی کے سینئرپروٹوکول افسر کو جعلی تعلیمی ڈگری کی بنیاد پر ملازمت حاصل کرنے کے جرم میں فوری طور پر برطرف کرنے کا حکم دیدیا ہے۔
چیف جسٹس راجہ سعید اکرم خان کی سربراہی میں قائم دو رکنی بینچ نے اسمبلی سیکرٹریٹ کے پروٹوکول افسر مشتاق احمد عباسی کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو برقرار رکھا جس میں احتساب بیورو کی انکوائری کو چیلنج کرنے والی ان کی رِٹ پٹیشن مسترد کر دی گئی تھی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے جسے چیف جسٹس نے تحریر کیا میں کہاہے کہ مشتاق عباسی نے 1995 میں قانون ساز اسمبلی میں تقرری کے وقت جو بی اے کی ڈگری پیش کی تھی اسے پنجاب یونیورسٹی نے جعلی قرار دے کر یہ واضح کر دیا ہے کہ یہ ڈگری عدیل انجم ولد عزیزالرحمان نامی کسی شخص کے نام پر جاری ہوئی تھی۔
عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ پنجاب یونیورسٹی نے نہ صرف اس ڈگری سے لا تعلقی ظاہر کی بلکہ فروری 2001 میں اسے باقاعدہ طور پر منسوخ بھی کر دیا جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ درخواست گزار نے جعلی تعلیمی اسناد کے ذریعے سرکاری ملازمت حاصل کی۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ آزاد کشمیر کا بڑا فیصلہ: پاپولیشن ویلفیئر کے 128 ملازمین کی برطرفی معطل
واضح رہے کہ مشتاق عباسی کو 1995 میں اس وقت کے سپیکر اور ان کے ماموں عبدالرشید عباسی نے گریڈ 17 میں بھرتی کیا تھا۔ بعد ازاں ان کی اسامی کو گریڈ 18 میں اپ گریڈ کردیا گیا تھا۔
چند سال قبل انہیں سروس کی طوالت کی وجہ سے پرسنل گریڈ 19 دیا گیا تھا۔مشتاق عباسی کی تقرری کے کچھ عرصہ بعد ہی ان کی جعلی سند کے حوالے سے میڈیا میں شور ہوا تھا ۔
2001 میں پنجاب یونیورسٹی کے واضح مکتوب کے باوجود بعد میں آنے والے تمام سپیکرز نے سیاسی وجوہات پر انہیں برطرف کرنے سے گریز کیا تھا۔
عدالت نے مشتاق عباسی کے اس موقف کو بھی رد کر دیا کہ چونکہ اصل شکایت کنندہ نے درخواست واپس لے لی تھی اس لئے احتساب بیورو کو انکوائری کا اختیار نہیں رہا۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ احتساب بیورو کو جعلی دستاویزات اور اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے معاملات کی تحقیقات کا مکمل قانونی اختیار حاصل ہے، خواہ اصل شکایت کنندہ اپنی درخواست واپس ہی کیوں نہ لے چکا ہو۔
یہ بھی پڑھیں: ہائیکورٹ آزاد کشمیر کا بڑا فیصلہ، یوٹیلیٹی اسٹورز کے 50 ملازمین بحال،برطرفی کا فیصلہ معطل
عدالت نے یہ بھی کہا کہ کسی معاملے پر سول عدالت میں مقدمہ زیر سماعت ہونے کے باوجود جعلی دستاویزات یا دھوکہ دہی کے خلاف انتظامی یا فوجداری کارروائی کی جا سکتی ہے، خصوصاً جب متعلقہ ادارہ خود اس سند کو جعلی قرار دے چکا ہو۔
عدالت نے قرار دیا کہ پنجاب یونیورسٹی کی واضح پوزیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ہائیکورٹ کے فیصلے میں کوئی قانونی یا فکری خامی نظر نہیں آئی۔
سپریم کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ وہ عدالت کے مشاہدات اور احکامات قانون ساز اسمبلی کے سیکرٹری تک پہنچائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ درخواست گزار کو فوری طور پر ملازمت سے برطرف کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کیا کہ اس فیصلے سے احتساب بیورو کو یہ اختیار حاصل رہے گا کہ وہ ضرورت محسوس کرے تو مشتاق عباسی کے خلاف احتساب بیورو ایکٹ 2001 کے تحت باقاعدہ ریفرنس دائر کرے۔