فضاء خورشید کیس، ورثاء کا جوڈیشل کمیشن رپورٹ منظرعام پر لانے کا مطالبہ

راولاکوٹ (کشمیر ڈیجیٹل)فضاءخورشید کیس میں مرحومہ کے ورثاءنے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ڈاکٹرز کی جانب سے ہڑتال ، پریس کانفرنس اور دیگر الزامات کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔

ورثاءنے عدالت سے مکمل انصاف کی امید کا اظہار کرتے ہوئے اب تک کی عدالتی کاروائی پر بھی اطمینان کیا ہے اور کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم کرتے ہوئے دو روز قبل اس کیس میں نامزد دیگر دو لیڈی ڈاکٹرز کی گرفتاری کا بھی خیرمقدم کیا ۔
ورثاءمیں مرحومہ کے تایا ڈاکٹر اشرف ، بھائی فہد اشرف اور کزن رشید شریف نے پیر کے روز غازی ملت پریس کلب (رجسٹر ڈ)راولاکوٹ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس کی ایف آئی آر 6-09-2024 کو درج کی کی گئی جبکہ ڈی ایچ او پونچھ کی طرف سے انکوائری کمیٹی 7-09-2024 کو تشکیل دی گئی جس میں کہا گیا کہ 3 ایام کے اندر رپورٹ پیش کی جائے ۔

جس کی رپورٹ مختص کردہ ایام میں نہیں آئی ۔ 12-09-2024 کوسی ایم ایچ کی ایک نرس انیقہ نے ایک بیان حلفی دیا جس کی تصدیق انہوں نے عدالت میں پولیس میں آکر بھی پیش کی۔

اس اقدام کے بعد پیرامیڈیکل سٹاف نے ہڑتال کی جس میں انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرز کی جانب سے اس کیس کا سارا ملبہ ہم پر ڈالا جارہاہے۔ 20-09-2024 کو ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں کہا گیا کہ 7 ایام کے اندر اس کمیٹی کی رپورٹ پیش کی جائے گی جو آج تک کم ازکم ہمارے پاس نہیں پہنچ سکی۔

ڈپٹی کمشنر پونچھ نے 2-11-2024 اور 5-11-2024 کوجوڈیشل کمیشن کی تشکیل کیلئے خطوط لکھے لیکن اس عرصہ میں جوڈیشل کمیشن تشکیل نہیں دیا گیا اس کے بعد 21-12-2024 کو ہم جسٹس آف پیش کے پاس گئے جہاں 3 ماہ کے بعد اس کیس کی سماعت کا عمل شروع ہوا۔

جسٹس آف پیس کے پانے جانے کی جو بنیادی وجہ تھی وہ یہ تھی کہ جب ہمیں اداروں سے انصاف نہیں ملا تو ہم نے عدالت سے ہی رجوع کیا۔

جب عدالت نے کاروائی کیلئے احکامات صادر کیئے تو ان لوگوں نے عبوری ضمانتیں کروانے کے بجائے ہائیکورٹ کے پاس پیش ہوگئے۔

ہائیکورٹ نے جب دوران سماعت ان لوگوں سے عبوری ضمانتوں کے بارے میں دریافت کیا کہ انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس عبوری ضمانت نہیں ہے جس کے بعد عدالت نے ان سمیت پولیس سے بھی اس وقت تک کاروائی نہ ہونے کے بارے میں دریافت کیا۔

ہائیکورٹ کی ڈائریکشن پر جسٹس آف پیس نے کاروائی کا آغاز کیا جس کے نتیجہ میں کچھ دن قبل 2 لیڈی ڈاکٹرز سمیت 1 نرس کی بھی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ اس گرفتاری کے خلاف ڈاکٹرز نے احتجاج شروع کردیا اور اپنی سروسز دینے سے بھی انکار کر دیا۔ ڈاکٹر ز حضرات نے دوران پریس کانفرنس یہ بھی الزام عائد کیا کہ جو کمیٹیز تشکیل دی گئیں اس پر ورثاءنے عدم اعتماد کر دیاتو یہ الزام باالکل خلاف حقائق تھا۔

ہم نے ڈی سی اور کمشنر وقت سمیت ایس ایس پی وقت کو بھی لکھا کہ انکوائری رپورٹس ہمارے حوالے کی جائیں تو انہوں نے کہا کہ انکوائری رپورٹس نامکمل ہیں جس کی بناءپر آپ کے حوالے نہیں کی جاسکتی۔

جوڈیشل کمیشن کے حوالہ سے ہم نے وزیر اعظم آزاد کشمیر سے بھی ملاقات کی اور انہوں نے بھی ہدایات دیں کہ کمیشن تشکیل دیا جائے مگر ان کے اعلان کے باوجود 1 ماہ گزرنے کے بعد بھی کمیشن تشکیل نہیں دیا گیا۔

بعد ازاں ہم نے وفود کی صورت میں ضلعی انتظامی افسران سے بھی ملاقاتیں کیں جس کے بعد جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا ، اس کمیشن کی تشکیل سے قبل ہی جسٹس آف پیش کی کاروائی شروع ہو چکی تھی ۔ اس کاروائی کا جوڈیشل کمیشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جوڈیشل کمیشن بننے سے پہلے ہی یہ ڈاکٹر ضمانت قبل از گرفتاری بھی لے چکے تھے ۔ ڈاکٹرز نے سوال اٹھایا کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کیوں نہیں آئی تو ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ان سے بھی زیادہ ہمارا مطالبہ ہیکہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے۔
5
مئی کو رپورٹ جمع ہونے کے باوجود ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باوجود بھی تاحال پبلک نہیں کی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرز صاحبان کے اندر سے لوگوں نے خود عوامی سطح پر بھی اور پولیس کے پاس جاکر بھی ان کے خلاف بیانات دیئے جو اس بات کا واضح ثبوت ہیکہ ان کی لاپرواہی، غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے بچی کی موت واقعہ ہوئی۔

ورثاءکی جانب سے ایف آئی میں کسی بھی ایک سنگل آدمی کو بھی نامزد نہیں کیا گیا۔یہ تمام نام انکوائری کے دوران سامنے آئے۔

ہماری نہ کسی سے کوئی ذاتی جان پہچان ہے اور نہ ہی کوئی ذاتی دشمنی اور نہ ہی ہم ان گرفتار لوگوں میں سے کسی کو بھی ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ پولیس کی کاروائی کا بھی خیرمقدم کرتے ہیں جنہوں نے گزشتہ روز کاروائی کرتے ہوئے دو مزید ڈاکٹرز طیبہ اور فریال کو بھی گرفتارکیا جائے۔
ایران کا اسرائیل میں قائم امریکی سفارتخانے پر بھی میزائل حملہ، ایک حصہ تباہ

Scroll to Top